لائبریری اور کتاب

اس مرتبہ کا کالم اس لئے منفرد ہے کہ آج کے کالم میں ہم لائبریری اور کتاب کی بات کریں گے ۔ کتب بینی کی دم توڑتی روایت کے مستحکم ہوتے ہوئے کتاب کی بات کرنا اور لائبریری بارے کچھ کہنا یقیناخوشگوار امر ہے ۔ صوابی سے محمد ابراہیم خلیل کا برقی پیغام ہے کہ ان کے علاقے میں اپنی مدد آپ کے تحت لائبریری قائم کی گئی ہے انہوں نے گزارش کی ہے کہ ہر قسم کی کتابیں اور رسائل جو کسی کے پاس موجود ہوں وہ ان کو عطیہ کی جائیں جوعطیہ کرنے والے صاحب ‘ صاحبہ کے نام کے ساتھ بصد شکریہ لائبریری میں رکھ دی جائیں گی ان کا فون نمبر برائے رابطہ 03135806000 یہ ہے ۔ اس کالم میں بے شمار مسائل و شکایات کا ذکر ہوتا رہا ہے لیکن آج کا پیغام اور اپیل رقم کرتے ہوئے ایک انجانی خوشی ہو رہی ہے کہ ابھی کتب بینی کی اہمیت کو سمجھنے والے اور کتاب لکھنے کا شوق رکھنے والے موجود ہیں۔ لائبریری کی بات ہو رہی ہے تو لگے ہاتھوں کتاب کی بھی بات ہو جائے ۔ جاوید اقبال انجم بنیادی طور پر انجینئر ہیں مگر تواترکے ساتھ کتابیں تحریرکرنے کا ان کا شوق ہے ۔ اپنی تازہ کتاب”دہم الف” میں انہوں نے سکول کے دور کی یادداشتیں لکھی ہیں جن کو پڑھ کر سرکاری سکولوں کے معیار اور ان سکولوں میں پڑھنے والوں کی محنت و کامیابی کا اندازہ ہوتا ہے کتاب میں اسی دور کے طالب علموں اور اساتذہ دونوں کے حوالے سے خوشگوار یادوں کو دہرایاگیا ہے ان کا شاندار حافظہ پڑھنے والے کو ماضی میں لے جاتا ہے اور اس دور کے ماحول و تعلیم و تعلم طلبہ و اساتذہ کی محنت و شفقت کے دور کی یادیں تازہ ہوتی ہیں کچھ عرصہ قبل تک تو سرکاری سکول ہی تعلیم کا بہترین ذریعہ تھیں اب بھی ہیں نجی سکولوں کی منافع بخش صنعت اور کاروبار حال ہی کی بات ہے ۔
جاوید اقبال انجم کی کتاب کے حوالے سے میں خود کچھ کہنے کی بجائے کتاب پر ہمسایہ کالم نگار جو خود بھی اتفاق سے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہونے کے ساتھ ساتھ انجینئر بھی ہیں وہ نہ صرف بھر پور ادبی ذوق رکھتے ہیںبلکہ ادبی رسالہ عطاء کے مدیر و مرتب ناشر اور ارسال کنندہ سبھی کچھ ہیں اس لئے مناسب سمجھا کہ انہوں نے کتاب اور مصنف کے حوالے سے جوحرب چند لکھا ہے اس مختصر مگر جامع تحریر ہی کو کالم کا حصہ بنا لوں ۔ انجینئر ڈاکٹر ذکاء اللہ خان گنڈہ پور لکھتے ہیں کہ انجینئر جاوید اقبال انجم کی ایک تصنیف ”شہر بے مثال” ان کے آبائی شہر کے مختلف مقامات ‘ شخصیات اور حالات سے متعلق ہے۔دوسری تصنیف”بزم انجم” ان کی پیشہ ورانہ زندگی کو نمایاں کرتی ہے اور اب ان کی نئی تصنیف ”دہم الف” سکول کے واقعات پر مبنی ہے ۔ ان تمام تصانیف میں پائے جانے والے مظاہر ‘پیش آنے والے واقعات اور موجود کرداروں کے ساتھ مصنف کی ذات کا گہرا تعلق ہے ۔ انسان کی دلچسپی کا سب سے بڑا مرکز خود اس کی ذات ہے ۔ اپنی ذات کے بارے لکھنے والا خود ہی اپنا ناقد ‘ خود ہی اپنا شاہد اور خود ہی اپنی تصویر بنانے والا ہوتا ہے جس میں وہ زندگی سمو دیتا ہے ۔ زندگی کی اس تصویر میں پھر ہرطرح کے محسوسات ‘ تجربات اور تاثرات اپنا رنگ بھر دیتے ہیں۔ ان تینوں کتابوں کی مشترک خصوصیت یہ ہے کہ انجینئر جاوید اقبال نے اپنی یادوں کے سہارے عمر رفتہ کی داستان لکھ دی ہے ۔ وہ اپنی زمین سے اس قدر جڑا ہوا اور اپنے ماحول سے اس قدر مانوس ہو چکا ہے کہ اب ان یادوں کی گرفت سے نکلنا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ اسی لئے یہ محض خود نوشت نہیں بلکہ وہ یادیں ہیں جس میں اس کی خود سپردگی اور وار فتگی کوپڑھنے والا فوری طور پر محسوس کرتا ہے ۔ مصنف نے
ان یادوں میں نہ تو اپنی شخصیت بڑھانے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی قاری کو چونکا دینے والی باتیں لکھی ہیں۔ اس یاد نگاری میں زبان و بیان کے لحاظ سے ادب و انشاء کے جوہر نہیں پائے جاتے مگر سلیس انداز کی اس تحریر میں بیتے دنوں کے بارے مصنف کی اندرونی کیفیت اور اپنے ہر تعلق سے گہری وابستگی پوری طرح جلوہ گر ہے ۔ اپنے ماحول کے زیر اثر ایک نوعمر کی زندگی انتہائی سادگی ‘ شرافت اور اخلاق کے ساتھ بسر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ جاوید نے اپنے اساتذہ کرام کا ذکر بڑی نیاز مندی سے کیا ہے ۔ اپنے ہر استاد کا الگ سے خاکہ لکھ کر اس درسگاہوں کے ماحول اور اقدار کی خوب عکاسی کی ہے ۔ یہاں بھی تحریر میں وہی سچائی ‘ بے ساختگی اور ادب کے قرینے شامل ہیں جس سے جاوید کی زندگی عبارت ہے ۔ یہ تحریر یادوں کا ایک ایسا مرقع ہے جس کا اصل لطف ان کے ہم عصر اور خاص کر اہل شہر ہی اٹھا سکتے ہیں کہ جسے پڑھ کر انہیں اپنے ماضی کی دلفریب جھلکیاں نظر آئیں گی۔اب میں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دو ادیبوں سے تو سب پہلے ہی گزارش کروں گی کہ وہ صوابی کی لائبریری کے لئے محولہ فون نمبر پر رابطہ کرکے کتابوں اور رسائل کا عطیہ دیں یقیناً دونوں کتاب سے محبت کرنے والے اور صاحب مطالعہ شخصیات ہیں صرف خود نہیں ان کے حلقہ احباب میں بھی اسی طرح کے لوگ ضرور شامل ہوں گے ان کی وساطت سے ان سے بھی عطیہ کتب کی گزارش ہے ۔ بہت سے گھرانوں میں کتابیں اور لائبریریاں ہوں گی ان سے گزارش ہے کہ اپنی لائبریری سے کچھ نہ کچھ کتب صوابی کے پبلک لائبریری کو ضرور عطیہ کریں علاوہ ازیں میں اپنے تمام قارئین سے بھی گزارش کروں گی کہ سبھی چند کتابیں اپنے پاس سے یا خرید کر عطیہ کریں اور جس نیک کام کا بیڑاصوابی کے محمد ابراہیم خلیل نے اٹھایا ہے اسے کامیاب بنائیں۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  اہم منصوبے پرکام کی بندش