غالب یہ خیال اچھا ہے

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ‘ہم بھی صورتحال سے پریشان تھے ‘ موضوع پرکھتے ہوئے تھک گئے تھے ‘ مگراب خوش ہیں ‘ یہ ہیں کہ گویا آج پہلی تاریخ ہے اور ایک بہت پرانے بھارتی فلمی گانے کے مصداق جو نہ جانے کب سے ریڈیو سیلون پرہر ماہ کی پہلی تاریخ کو صبح ہی صبح نشر کیا جاتا اور لوگوں کو یہ خوشخبری سناتی جاتی کہ ”خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے” کیونکہ پہلی تاریخ میں ابھی چند روز باقی ہیں اوراپنے لڑکپن ہی سے یہ گانا سنتے سنتے ہم بڑے ہوئے ‘ اتنا کہ اب ہماری عادتیں تھوڑی سی تبدیلی ہو چکی ہیں کیونکہ تب ہم سکول ‘ پھر کالج اور اس کے بعد خود ریڈیو کی ملازمت کے ادوار سے گزرتے یہ گانا سنتے رہے ‘جبکہ اب ہمارے بال بھی سفید ہو چکے ہیں ‘ ملازمت سے ریٹائر ہوئے بھی کئی سال ہو چکے ہیں اور اب تو ریڈیو کیا ‘ ٹی وی کا دور بھی گزرتے گزرتے سوشل میڈیا کے عہد میں بہنچ چکا ہے ‘ ریڈیو سنے ( اور چھوڑے) ہوئے بھی کئی برس بیت چکے ہیں ‘ ٹی وی اب ہماری پوتیوں کے تصرف میں جا چکا ہے جو ہمیں خبریں تک دیکھنے نہیں دیتیں کہ ان کی پسند کے کارٹون جوچلتے ہیں ‘ سو اب ہم خود کو صرف سوشل میڈیا اور اخبارات کی دنیا تک محدود کر چکے ہیں بات کسی اور سمت رخ کرنے لگی ہے اس لئے واپس آتے ہیں یعنی یوٹرن لیتے ہیں ‘ اور جس ہاہا کار کی بات ہم کر رہے تھے اس کی نشاندہی کر لیتے ہیں ‘ اپنی خوشی کی وجہ بھی بتاتے ہیں ‘ جی ہاں ہا ہا کار تو اس بات پر مچی ہوئی ہے کہ گزشتہ چند روز ‘ چند ہفتے بلکہ چند مہینے کے اخبارات کو کنگھا لیں توگیس بحران کی نشاندہی ہوتی ہے جس پر ہم بھی اب تک متعدد کالم باندھ چکے ہیں کیونکہ اس حوالے سے شور و غوغا کرنے والوں میں ہم بھی کم از کم تحریری طور پر اپنا حصہ اس لئے ڈال رہے تھے کہ خود ہم بھی پکے از متاثرین گیس میں سے ہیں مگر اب ہم بہت خوش ہیں کیونکہ اب ہمارے گھر میں گیس ”وافر مقدار” میں چوبیس گھنٹے میں کم از کم بارہ چودہ گھنٹے موجود رہتی ہے’ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس پر آگے چل کر بات کریں گے ‘ ہاں وہ جو یوٹرن کاتذکرہ ہم نے کیا ہے تو عوامی سطح پر ہا ہاکار کے ساتھ ساتھ یوٹرن کی ایک بہار کی سی کیفیت بھی نظر آرہی ہے اور یہ یو ٹرن مختلف وزرائے کرام کے ان تازہ بیانات سے سیاسی فضاء میں اپنی چھب دکھلا رہی ہے یعنی ذرا وقافی وزیر اسد عمر کے اس بیان کو دیکھیں تین چار روز پہلے جس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میاں نواز شریف کو ملک سے باہر بھجوانے کا فیصلہ خود وزیر اعظم عمران خان کا تھا ‘ اس بیان کی ا شاعت پر ہم نے اخبار کے صفحات پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے اپنا دل خوش کرنے کے لئے ایک قدیم محاورہ بھی تحریر کردیا تھا کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ‘ اگرچہ ہم غالب کے الفاظ میں یہ بھی لکھ سکتے تھے کہ
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقیت ‘ لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اور پھر ہماری اس سوچ کی بالآخر تصدیق ہو گئی یعنی اتوار کے روز الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پراور آج جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں یعنی پیر کے روز کے اخبارات میں اسد عمر نے ایک زبردست یوٹرن لیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ میرا بیان غلط انداز میں پیش کیا گیا ‘ نواز شریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ کابینہ میں مشاورت کے بعد کیاگیا ‘ دراصل سیاسی رہنمائوں کو بیانات جاری کرنے سے پہلے مرزا غالب سے ضرور رجوع کرنا چاہئے جوبیان دیتے وقت حد درجہ کمال الفاظ کا انتخاب کرنے کی روایت کے حامل تھے ‘ یہی صورتحال گورنر پنجاب چوہدری سرور کی بھی بنی ‘ جنہوں نے پہلے کہا تھا کہ نواز شریف سے لیکر عمران خان تک کئی رہنمائوں کو انہوں نے اقتدار تک پہنچایا ‘ مگر جب ا نہیں بقول بعض تجزیہ نگاروں کے یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بھی پی ٹی آئی کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات احمد جواد جیسا ”حشر” ہو سکتا ہے تو فوراً یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ کسی کو وزیر اعظم بنوا سکتا تو خود نہ بن جاتا’ وزیر اعظم بنوانا تو دور کی بات ‘ اکیلا شخص رکن اسمبلی نہیں بنوا سکتا ‘ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ نواز شریف ‘ بے نظیر شہید اور عمران خان کو میں نے اکیلے وزیر اعظم بنوایا”۔چلئے اچھا ہوا کہ دو بیانات کی تصحیح تو ہوگئی ‘ اب کس کو اتنی فرصت ہے کہ بیانات کوفرانزک کے مراحل سے گزارنے کی زحمت کرے ‘ بہرحال اس سے پہلے کہ ایک اور متوقع یوٹرن کا جائزہ لیا جائے ‘ اصل مسئلے پر بات کی جائے یعنی وہ جو ہم نے اپنی خوشی کے حوالے سے تذکرہ کیا تھا کہ ہم خوش ہیں تو اس کا کارن کیا ہے ‘ تو بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے بارہ چودہ گھنٹے گیس ملنے کی جو بات کی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے بھی حکومت کے بار بار انتباہ اور اخبارات میں اشتہارات چھپوا کر ”قید و جرمانہ یا دونوں” سے خبرداری کے باوجود اپنے لئے ایک کمپریسر خرید کر گیس پر تصرف حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ‘ اب ہمارے گھر میں بھی ”گیس کے شعلوں” کی بہار آئی ہوئی ہے اب تک تو ہم دوسروں پر اعتراض کرتے تھے کہ وہ اپنے ہمسایوں کا استحصال کرکے گلی محلے کی ساری گیس کھینچ لیتے ہیں اور محکمہ سوئی گیس والوں کوکوستے رہتے تھے کہ وہ ان لوگوں کی کوئی خبر نہیں لیتے جنہوں نے غریب اور قانون کا احترام کرنے والی مخلوق کا جینا حرام کر رکھا ہے مگر جب خود ہم نے ہی اس ”سہولت” سے استفادہ شروع کیا تو بہت ہی مزہ آیا ‘ بہرحال آگے کیا ہوا ‘ اس کا تذکرہ کرنے سے پہلے اس متوقع یوٹرن کا تذکرہ کرلینے میں کیا حرج ہے جس پر اوپر کی سطور میں بات کی تھی اور متوقع یوٹرن ممکن ہے ان سطور کے شائع ہونے تک آبھی چکا ہو ‘ جو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان فرما دیا ہے کہ ”صدارتی نظام کی کوئی حقیقت نہیں ‘ ایک غبارہ ہے جس کی جلد ہوا نکل جائے گی”۔ آپ انتظار کیجئے اور اب ہم اپنے کمپریسر خریدنے کی حقیقت بھی بیان کر دیتے ہیں کہ کمپریسر کے استعمال سے اچانک آگ بھڑک اٹھی اور اس سے پہلے کہ شعلے ہمارے اردگرد پھیل کرمسائل کھڑے کر دیتے ‘ ہماری آنکھ کھل گئی اور خود کو سلامت پا کر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔ قتیل شفائی نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ
ہم جل تو گئے لیکن چنگاری اٹھی ایسی
اٹھتا ہوا ظالم کے گھر سے بھی دھواں اٹھا

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام