انتخابی مرحلے اور ووٹر کی پریشانیاں

اب ٹھیک سے یاد نہیں مگر یہ غالباً فرانسیسی مصنف موپساں کی کوئی کہانی تھی جس میں ایک شخص اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا تھا ۔اتفاق سے بیوی پہ نمونیہ کا حملہ ہوا اور وہ چل بسی۔ شوہر کو جدائی کا ایساصدمہ ہوا کہ اس کاپورا دن اپنی بیوی کی قبر کے سرہانے گزرتا ۔رات کو قبرستان میں رہنے کی اجازت نہ تھی ،اس لیے بادلِ ناخواستہ گھر چلا آتا۔ ایک دن اُس نے قبرستان میں رات بسر کرنے کا تہیہ کیا تو شام سے ہی وہاںایک جگہ جا کر چھپ گیا۔رات کو اپنی پناہ گا ہ سے نکل کر بیوی کی قبر تک جانے لگا تو ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک قبر سے مردہ نکلا اور اپنے لوح مزارپہ لکھی عبارت پڑھ کر پہلے قہقہ لگایا،پھر یہ جملہ ”مرحوم نہایت مخلص دوست اور پاکباز تھا” مٹا کر لکھا کہ ” یہ شخص نہایت مکار اور بڑا گنہگار تھا”، اتنے میں دوسری قبر سے مردہ نکلا اور اُس نے بھی اپنے بارے تعریفی کلمات مٹا کر لکھا ” یہ ڈاکوئوں کا سرغنہ اور بہت بڑا بدمعاش تھا”ایک ایک کر کے تما م قبروں سے مردے نکلے اور ہر ایک نے اپنا حقیقی کردار لکھا۔ کوئی لٹیرا تھا توکوئی بلیک میلر۔کسی نے لوٹ مار سے لاکھوں کمائے تو کسی نے غنڈہ گردی کو اپنا پیشہ بنایا۔ کوئی اپنوں کوفریب دیتا رہا تو کوئی عمر بھر ظلم کرتا رہا۔ یہ دیکھ کر وہ بیوی کی قبر پہ آیا جہاں اس نے کتبہ پر بڑے پیار سے لکھوایا تھا”یہ اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی اور آخر دم تک شوہر کی وفا داربیوی رہی”۔ محترمہ نے عبارت کو مٹا کر لکھ دیا تھا ” یہ نہایت بے وفا تھی،ایک شام اپنے محبوب سے مل کر واپس گھر آرہی تھی کہ بارش میں بھیگ گئی۔سردی لگی، نمونیہ ہوا اور مر گئی”۔یہ پڑھ کر بے چارے رنڈوے پر جو گزری ہو گی ،اُسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہانی اس لیے یاد آئی کہ چند دِن پہلے میرے ایک سادہ لوح دوست ملنے آئے اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اُمیدواروں کی تعریفیں سن کر وہ اس قدر متاثر تھے،کہنے لگے کہ اس کے لیے کسی کا انتخاب کرنا مشکل ہو گیا تھا۔وہ یہ فرق معلوم نہ کر سکا کہ کون بہت اچھا ہے اور کون کم ہے۔مَیں اُس کی باتیں سنتا رہا اور سوچنے لگا کہ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی سر پر ہے بلکہ اس کے سال بھر بعد تو مُلک میں اسمبلیوں کے انتخابات کی تیاریاں بھی شروع ہو جائیں گی۔ ہر اُمیدوار پھر سب کے سامنے اپنی پارسائی،قوم کی خیر خواہی اور دانائی کا یقین دلاتے پھریں گے۔ان میں سچے کتنے اور جھوٹے کتنے ہیں۔اس کا فیصلہ تو ان کی روحیں ہی کر سکتی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان کی روحیں اب اُن کی جسمانی قفس میں بند ہیں۔ آپ کسی اُمیدوار کو چاہے کتنا ہی اُکسا لیں ،وہ اشتعال میں آکر بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا کہ اپنے کتبے پہ ”آپ کے ووٹ کا واحد حقدار ہے ”کی عبارت لکھنے کی خاطر مو ت کو دعوت دے بیٹھے۔ بلدیات یا پارلیمنٹ میں ہونا تو اس کے دم سے ہے۔ اِدھر دم نکلا اور اُدھر الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب کی تیاری شروع کر دینی ہے۔ اس لیے میرے دوست سمیت تمام ”ووٹرانِ کرام” کو یہ اُمید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ امیدوار کی روح سے حق بات معلوم کر لیں گے۔ یہاں تو اپنے ضمیر سے ہی صحیح بات معلوم ہو سکتی ہے،اپنی آنکھوں سے ہی بھلے بُرے کی پہچان ہو سکتی ہے اور اپنے عقل وشعور سے ہی مناسب فیصلے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ انتخاب میں اگر احتیاط نہ برتی جائے اور سوجھ بوجھ سے کام نہ لیا جائے تو انسان عموماً دھوکہ کھا جاتا ہے۔اس معاملے میں سادہ لوحی،خوش فہمی اوربے جا اعتماد ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔ قارئین کرام ! دیکھ لیںہم نے بھی اپنے دوست کی اتنی سی بات پہ بس یونہی تقریر جھاڑ دی ۔ کیا خبر ایسے میں کوئی امیدوار بگڑ اٹھے اور کہہ دے ،ذرا قلم سنبھال کے لکھو اور پہلے کسی یونین کونسل کے رکن منتخب ہو کر تو دکھاوپھر ہمارے منہ لگنا۔میرے اور عوام کے درمیان تم بولنے والے کون ہو۔ شاید اس قسم کی ڈانٹ کے خوف سے ہم خاموش رہتے لیکن بات یہ ہے کہ ہم اپنے نمائندوں سے کیسے بے تعلق رہ سکتے ہیں ،جب اُنہوں نے ہماری آوازبننا ہے،مسائل حل کرنے ہیں اورہمارے حقوق کے لیے لڑنا ہے تو پھر کہنا لازم آتا ہے کہ اُسے خوب ٹھونک بجا کر اور اُس کا ماضی و حال سب کھنگال کر ووٹ دینا چاہیے۔ یوں تو کوئی معمولی سی چیز بھی خریدنی ہو تو اُسے دس مرتبہ دیکھا اور پرکھا جاتا ہے ، جب یقین ہو کہ سودا مناسب ہے تب قیمت ادا کی جاتی ہے۔ یہاں تو ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا پڑتاہے جنہوں نے اپنے ضلع ،صوبہ اور مُلک سے متعلق فیصلے کرنے ہوتے ہیںتو پھر سوجھ بوجھ اور احتیاط کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ انہی فیصلوں سے تو مُلک اور افراد متاثر ہوتے ہیں ۔
قارئین! اپنا ایک حق ثابت کرنے کو ہم نے بہت سی باتیں کہہ دیں۔اس کے باوجود اگر کوئی ووٹر یا اُمیدوار قائل نہیں ہوا تو ایک دن اسے وہاں جانا ہے جہاں اپنے ہاتھوں سے اپنی لوح مزار پر سچی بات لکھی جا سکتی ہے۔البتہ اس کی تردید کے جواب میں اُس فقیر کا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے ،جس کی اکلوتی چادر کوئی چور لے گیا۔ وہ قبرستا ن کے سامنے دھرنا مار کر بیٹھ گیا،لوگوں نے کہا سائیں! یہاں چور کہاں ملے گا۔ فقیر کہنے لگا کہ ” فکر نہ کرو، ایک دن وہ ضرور یہاں آئے گا”۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ