عدم برداشت

عدم برداشت کا پودا

قیامِ پاکستان سے لیکر اب تک پاکستانی نوجوانوں میں عدم برداشت کسی نہ کسی شکل میں بڑھتی ہی گئی ہے چاہے وہ مذہبی اعتبار سے ہو یا پھر حب الوطنی اور قوم پرستی کے نام پر ہو یا پھر سرد جنگ میں عالمی سیاست پر غالب آنے والے مغربی نظریات کی جنگ ہو نیز ہر ایک اعتبار سے پاکستانی نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے کے بجائے انہیں متشدد بنایا گیا ہے اور یہ عدم برداشت کا سایہ تب سے پاکستان پر قائم ہے۔ اس کا سب سے پہلا عملی مظاہرہ1951میں لیاقت علی خان کی کابینہ کو گرانے کے لئے ہونے والی راولپنڈی سازش کے بعد ہوا جب پاکستان نے سیٹو اور سینٹو جیسے مشترکہ سلامتی (کلیکٹیو سیکورٹی) کے معاہدوں میں شامل ہونے کے بعد ملک میں اشتراکیت پسندوں کے خلاف عدم برداشت کا رویہ اختیار کیا۔ اس وقت کی حکومت نے بلا تفریق ہر ایک اشتراکیت پسند کو جیلوں میں ڈالا جس نے ملک میں دو غیر ملکی نظریات (اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام)کے اختلاف کو پاکستانی نوجوانوں میں ایسے حل کردیا گویا ان دونوں نظریات کی بنیاد پاکستان میں ہی رکھی گئی تھی۔ انہی مغربی نظریوں نے سخت گیر دائیں اور بائیں بازو کے گروپوں کو جنم دیا۔ بائیں بازو کے گروپ نے مذہب کا سہارا لیکر مذہبی جنونیت کو جنم دیا جبکہ دائیں بازو کے گروہوں نے سوویت یونین کو اپنا مسیحا سمجھ کر ایک طبقے کو کمیونزم کی ریل گاڑی کے پیچھے لگادیا۔سرد جنگ تو ختم ہوئی اور اشتراکیت کا بھی عالمی سیاست سے خاتمہ ہوا مگر کیپیٹلزم اور کمیونزم کی جانب سے جو انتہاپسندی کا بیج بویا گیا وہ آج بھی پاکستانی معاشرے میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ چاہے انتہا پسند مذہبی گروہوں کا مذہب کے نام پر ریاست کو بلیک میل کرنا ہو اور کسی کو بھی بنا سزا و جزا کے ہجوم کے ذریعے قتل کردینا ہو یا پھر تحریکِ انصاف اور ن لیگ کے سوشل میڈیا ورکرز کا ہر اس شخص کو ہراساں کرنا جو ان کے لیڈر کے خلاف کوئی بھی بیان دیتا ہے حتیٰ کہ غیر سیاسی لوگوں میں بھی عدم برداشت واضح نظر آتا ہے۔ کئی لوگ چور کو پکڑنے کے بعد اسے پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے اسے خود سزا دیتے ہیں تو کہیں عورتوں بچوں اور خواجہ سرائوں پر اپنی بھڑاس نکالی جاتی ہے اور کہیں لوگ برداشت کے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ بنا حقیقت جانے کسی کو بھی ملحد کا لیبل لگاکر قتل کردیتے ہیں۔پاکستانی نوجوانوں میں عدم برداشت کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے خدائی خدمتگار تنظیم کے بانی باچا خان جو عدم برداشت کی سیاست کی مرتے دم تک مخالفت کرتے رہے ان کے اصولوں کی پیروی کرنے والی جماعت عوامی نیشنل پارٹی بھی ایک لمبے عرصے تک کراچی میں پختون نوجوانوں کو قوم پرستی کی بنیاد پر جنونیت اور تشدد کی ترغیب دیا کرتی رہی ہے اور اسی طرح الطاف حسین مہاجر نوجوانوں کو ”اردو بولنے والوں کا استحصال”کا لقمہ دیکر منظم عسکریت پسندی کی جانب مائل کرتے رہے۔ نتیجتاً پختون اور اردو بولنے والی آبادیاں ایک دوسرے سے اس قدر نالاں ہوئیں کہ 12 مئی جیسے خونریز دنگے اور فسادات رونما ہوئے۔ اسی طرح چند مذہبی تنظیموں نے بھی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدیں قائم کر رکھی ہے۔ توہین مذہب تو دور یہ اپنے پیروکاروں کو اسقدر جنونی بنادیتے ہیں کہ اگر ان کے لیڈر کے خلاف بھی کوئی بات کرے تو اسے قتل کرنے تک تیار ہوجاتے ہیں۔ تو آخر کیسے ملک سے عدم برداشت کے رجحانات کو ختم کیا جائے گا ؟ ملک میں بہترین تعلیمی نظام کا فقدان اور عدل و انصاف کا ناقص ہونا بھی کئی وجوہات ہیں اس کی ایک وجہ ہے کیونکہ جب تک ایک نوجوان کتاب نہیں پڑھے گا تب تک اسے صحیح و غلط کا فرق معلوم نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ جب ایک شخص کو پہلے سے ہی معلوم ہو کہ اسے عدالت سے انصاف ملنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں تب اس میں برداشت ختم ہوجاتا ہے اور قانون کو ہاتھ میں لیکر خود سزا و جزا کا تعین کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں باہر سے برآمد شدہ نظریات کو نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈال تو دیا جاتا ہے مگر اسے یہ نہیں سکھایا جاتا کہ یہ نظریات عقل کی بنیاد پر بنائے گئے تھے جس پر عمل درآمد بھی عقلی طریقے سے ہی ہونا چاہئے ناکہ تشدد کی راہ اختیار کرکے۔ اور اسی طرح نوجوانوں میں کتاب سے محبت کو فروغ دے کر اور درست اور سستے نظامِ عدل کے ذریعے ہی عدم برداشت کے اس پودے کو جڑوں سے نکال کر باہر پھینکا جاسکتا ہے۔