صدارتی نظام کے چرچے

صدارتی نظام کے چرچے

کل میرے دو بہت ہی پڑھے لکھے اور مُلکی حالات پہ گہری نظر رکھنے والے دوست بحث میں اُلجھ پڑے۔ ایک صدارتی نظام کی خوبیاں بیان کر رہا تھا اور دوسرا پاکستان میں پارلیمانی نظام ہی کی بقا اور ضرورت پہ زور دے رہا تھا۔ یہ بحث الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ بھی جاری ہے۔ وہ کسی سابق فوجی افسر کا حوالہ بھی دے رہے تھے کہ جنہوں نے الیکٹرانک میڈیا پہ چند سال پہلے اور اب پھر تجویز دی ہے کہ اسمبلیاں ختم کر کے پانچ سال تک ٹیکنوکریٹ کونسل قائم کی جائے جو موجودہ نظام کے باعث پائی جانے والی خرابیوں کو دور کر کے آئندہ صدارتی نظام کے لیے راہ ہموار کر سکے۔ یہ کونسل قومی سلامتی کونسل کے ارکان، بیوروکریٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پہ مشتمل ہونی چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا کا یہ کمال ہے کہ ہمارے ہاں اتنے افلاطون پیدا کر دئیے ہیں کہ ایک اکثریت ان کی باتیں سن کر آپس میں اُلجھی ہوئی ہوتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، اب تو ایک ایسا ذریعہ ہاتھ آگیا ہے کہ قوم کو حقائق سے دور رکھ کر غیر ضروری سرگرمیوں اور غیر متعلقہ مسائل میں اُلجھایا جا رہا ہے۔ کیا ہمارا مسئلہ صرف یہی ہے کہ ملک کو پارلیمانی نہیں، صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ کیا صدارتی نظام کی وہ خوبی معلوم ہو چکی ہے، جس نے ہمارے مُلکی حالات کو فوراً بہتر بنانا ہے۔ اب تو اس حوالہ سے حکمران جماعت والے اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی اُلجھ رہی ہیں بلکہ ایک قرارداد بھی صدارتی نظام کے خلاف قومی اسمبلی میں جمع کرا دی گئی ہے۔ چند معتبر حکومتی نمائندے اپنے طور پہ کہہ چکے ہیں کہ صدارتی نظام کے بارے کوئی تجویز اس وقت حکومت کے زیر ِغور نہیں ہے جبکہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ اگر حکومت صدارتی نظام نہیں چاہتی تو پھر اس مخالف قرارداد کو متفقہ طور پہ منظور کر لیتے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان کا موجودہ آئین جو ایک آئین ساز اسمبلی کا پروردہ ہے اور جس نے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت کی تشکیل کو یقینی بنایا ہوا ہے، اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صدارتی نظام کو معرض وجود میں نہیں لایا جا سکتا۔ اس آئین کی موجودگی میں دو بار آمریت کا تسلط ہوا مگر آمروں نے اسے محض معطل کر کے اپنے اپنے انداز میں صدارتی طرز پہ حکومت اختیار کی۔ یوں آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب تو ہوئے لیکن وہ اپنے صدارتی نظام یا اس عمل کو کوئی آئینی سہارا نہ دے سکے۔ اس مُلک سے آمریت کا سایہ اُٹھنے کے بعد عوامی نمائندوں نے مُلک کا اصل آئین بحال کیا بلکہ ایک آمر کا نام بھی آئین سے ختم کر ڈالا۔ یہ اس آئین کا ثمر ہے کہ عوام مسلسل اب تک اپنے نمائندے خود منتخب کرتے چلے آرہے ہیں اور پارلیمنٹ میں عوامی نمائندگی کی جلوہ گری اسی آئین کی مرہونِ منت ہے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ کسی جوازکے بغیر ایک لایعنی سی تکرار جاری ہے اور نوجوان نسل کی جمہوریت کے خلاف ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ اصل اور بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے قوم کو کسی نہ کسی نئی اُلجھن میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یوں بھی ایک اکثریت اپنے ہی مُلک میں رہتے ہوئے بے سمتی کا شکار ہو چکی ہے۔یہاں بے انصافی، بد عنوانی، نسلی و مذہبی منافرت اور خوف و دہشت نے پہلے ہی انسانی زندگی کو ہراس میں رکھا ہوا ہے ،پھر ساتھ ہی مہنگائی نے رہی سہی کسر نکال دی۔ اربابِ اختیار کو سوچنا چاہیے کہ جہاں کسی آئینی عہدہ دار کی تعیناتی مشکل میں ڈال دے وہاں بھلا ایک متفقہ آئین کو ختم کر کے کسی دوسرے نظام کو لانے کے لیے نیا آئین کب اور کیسے بن پائے گا ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے جمہوریت کا ہی نقصان ہوتا ہے اور یہ سب کچھ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ جمہوریت ایک بہتر منظم اور مربوط نظام ہے مگر بد قسمتی یہ کہ ہمارے ہاں چہرے بدلنے سے نظام میں تسلسل باقی نہیں رہتا ۔گزشتہ حکومت کے ترقیاتی منصوبے ترک کر کے نئے منصوبے لائے جاتے ہیں اور پھر یہی ہوا کہ ایک بھی بڑا قومی منصوبہ مکمل نہیں ہو پاتا جس سے معاشی استحکام پیدا ہو اور عوام کو آسانیاں فراہم ہوں۔ اہل سیاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمانی نظام کو استوار اور مضبوط رکھنے کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ میں روزانہ فساد ،گالم گلوچ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے لوگ بھی اس نظام سے متنفر ہوئے جاتے ہیں ۔ ایوان میں شائستگی کا ماحول پیدا کرنا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے۔جمہوریت میں تو ایک دوسرے سے مکالمہ ہوتا ہے،ایک دوسرے کو سنا اور سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں خود ہی ماحول کو خراب کیا جارہاہے۔ بسا اوقات تو ارکانِ پارلیمنٹ کی یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جارہی۔ پارلیمنٹ کو اہم ادارہ بنانا اور اس کے احترام و تقدس کو برقرار رکھنا انہی معزز نمائندوں کا اولین فرض ہے۔ اگر ہماری سیاسی قیادت اپنا یہ فرض ادا کرنا شروع کردیں تو اسی میں پارلیمانی نظام کی بقا ہے ۔ایسے میں کسی غیر جمہوری قوت کوکوئی غیر آئینی فیصلہ کرنے کی جرات تک نہ ہو گی اور جب عوام کو یہ تاثر ملے گا تو وہ صدارتی یا کسی دیگرنظام کی افواہ پہ کان نہیں دھریں گے۔ جمہوریت کا ساتھ دیں گے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔