آن لائن ڈیٹا

آن لائن ڈیٹا کو محفوظ کرنے کی ضرورت

ایک عالمی ٹیلی ویژن چینل پر آئی ٹی اور بائیو انجنئیرنگ کے چند ماہرین کی یہ گفتگو اس لحاظ سے قابلِ تشویش تھی کہ اگرآنے والے وقت میں ہم دُنیا کی طاقت اور دولت کو صرف ایک گروہ کے ہاتھوں میں نہیں دیکھنا چاہتے توپھر کمپیوٹر ڈیٹا کی ملکیت ریگولیٹ کرنی ہوگی۔ ایک زمانہ تھا جب زرعی اراضی سب سے اہم جائیداد ہوا کرتی تھی۔ اس کے حصول میں بڑے جتن کیے جاتے بلکہ اس جائیداد کے تنازعات کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔اس زرعی زمین کی ملکیت نے ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جنہوں نے انسان کو اپنا مطیع بنایا۔ دور جدید میں مشینیں اور فیکٹریاں زمین سے زیادہ اہم اثاثہ بن گئیں۔ اکیسویں صدی میں ڈیٹا کا حصول اور اس کے استعمال کی اہمیت بہت زیادہ رہے گی۔ ڈیٹا کے حصول اور اسے محفوظ کرنے کی کوشش تو بہت پہلے سے شروع ہے۔ گوگل، فیس بک اور دیگر ذرائع کے ذریعے ڈیٹا کی جمع آوری اور جنگ جاری ہے۔ لوگوں کی اکثریت ان کے تفریحی معلومات اور دیگر خدمات میں ہمہ تن مصروف رہتی ہے۔ لوگوں کی یہ توجہ اشتہار بنانے والوں کو بیچی جارہی ہے۔ اس سے زیادہ اور اصل فائدہ یہ اُن کے ڈیٹا کی معلومات سے حاصل کرتے ہیں۔ درحقیقت ہم سب ان کے گاہک نہیں بلکہ پراڈکٹ بنے ہوئے ہیں۔ ڈیٹا کا یہ کھیل اور بعد ازاں اس کا ستعمال ایک نئے کاروبار کو دنیا کے سامنے پیش کرنے لگا ہے۔ اب گوگل کی مثال دیکھیں کہ یہ دنیا بھرسے بہترین پراڈکٹ بہت آسانی سے ڈھونڈ کر پیش کردیتا ہے۔ جب لوگ اپنی سوچ اور پسند کی بجائے گوگل کے مشورے پراشیاکا انتخاب کریں گے اور بہترین نتائج حاصل کریں گے تو ایسے میں مقامی صنعت کا کیا بنے گا؟ اس سے اشتہاری صنعت کا بھی نقصان ہوگا ۔ لوگ مفت ای میل سروسز اورتفریحی وڈیوز کے عوض اپنا قیمتی اثاثہ یعنی ذاتی ڈیٹا خوشی خوشی کمپنیوں کے حوالے کررہے ہیں۔ لوگ اب تک بلا سوچے سمجھے اپنا ڈیٹا کافی حد تک بانٹ بھی چکے ہیں، جس کی بازیافت کا اب کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ تاہم اب بھی اس حوالے سے محتاط رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طورپر بینکوں، موبائل کمپنیوں، اور سوشل ویب سائیٹس پرذاتی ڈیٹا کی تفصیل دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے استعماری قوت نے معمولی معاوضے کے عوض ریڈ انڈینز اورافریقیوں سے مکمل اراضی حاصل کر لی تھی۔ آن لائن سروسز کا استعمال اتنا زیادہ ہے کہ عام آدمی کا اب اپنا ڈیٹا روکنا اور اسے محفوظ رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ انسان کا اب مشینوں سے الگ ہونا ممکن نہیں کہ اُسے مختلف سہولیات سے محروم ہوناہو گا اب دیکھنا یہ ہے کہ لوگوں کاذاتی ڈیٹا کس کے قبضے میں جارہا ہے اور ان کا ڈی این اے ریکارڈ کس کی ملکیت بن چکا ہے؟ کیا حکومت کے پاس ہے یا دُنیا کی کوئی بڑی کارپوریشن اسے اپنے قبضے میں لے رہی ہے ؟ ماہرین یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اکیسویں صدی دُنیا کی تاریخ میں کہیں زیادہ عدم مساوات پر مبنی معاشرے تشکیل دے رہی ہے۔ اگرچہ عالمگیریت اور انٹرنیٹ نے ملکوں کے درمیان فاصلے گھٹادیے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ انسانیت عالمگیر اتحاد بننے جا رہی ہے مگر ساتھ ہی معاشرتی طبقات کے درمیان دوریاں دیکھنے میں آرہی ہیں جیسے انسانوں کے مختلف طبقے خود ہی اپنی اپنی زندگی کی درجہ بندی میں تقسیم ہو جائیں۔ ہاں معاشرتی عدم برابری کوئی نئی بات نہیں ہے کہ یہ تقسیم پتھر کے دور سے چلی آرہی ہے۔


ان ماہرین کا یہ خیال بھی تھا کہ مصنوعی ذہانت اوربائیو انجینئرنگ کی مشترکہ پیش رفت شاید انسانوں کو دو واضح طبقات میں تقسیم کردے۔ ایک سپرہیومن اور دوسرا نچلے طبقہ کی بیکار اکثریت جسے ریوڑ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس طرح طبقاتی فرق بڑھ جائے گا۔ متحد عالمگیریت کی بجائے شاید دُنیا میںطبقاتی امتیازکا نظام رائج ہوجائے ۔ انسان مختلف حیاتیاتی ذاتوں اور انواع میں تقسیم ہوجائیں ۔ غالباً روس اور امریکا کی اشرافیہ باہم مل جائیں اور باقی دنیا کے غریب لوگوں پرحکومت کریں۔ آگے چل کر شاید یہ صورتحال دنیا کی عالمگیریت کوالٹے قدموں چلنے پر مجبور کردے۔ ممکن ہے اشرافیہ اپنی ایک تہذیب تشکیل دے اور اونچی دیواروں والے قلعے اٹھادے۔ اب بھی محض چند گروہ عالمگیریت کے فائدے سمیٹ رہے ہیں ۔ بائیو ٹیکنالوجی کا انقلاب شاید انسانوں کی حیاتیاتی عدم برابری کو فروغ دے کیونکہ سرمایہ دار اب صرف اسٹیٹس ہی کے خریدار نہیں رہیں گے بلکہ نئی زندگی بھی خرید سکیں گے۔ نئے طبی تجربے زندگی کی معیاد بڑھاسکیں گے اورجسمانی دماغی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹی وی چینل پر گفتگو کرنے والے کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہوں۔ آن لائن کاروبار اور سوشل ویب سائیٹس کے حوالے سے پیش آنے والے خطرات میں مبالغہ آرائی بھی ہو سکتی ہے ۔ فیس بُک صارفین میں ایسے کتنے ہوں گے جو مارک ذکربرگ کے نام سے واقف ہیں؟ دراصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیٹا کو کیسے ریگولیٹ کیا جائے گا؟ یہ اس دور کی سیاسی پالیسی کا اہم ترین سوال ہوسکتا ہے۔ اگر ماہرین اس سوال کا جلد جواب نہ دے سکے تو خدشہ ہے کہ دُنیا کے سیاسی و معاشرتی نظام میں واضح تبدیلیاں رونما ہوںجسے ایک اکثریت محسوس بھی کر رہی ہے۔

بلاگر: انجنئیر ڈاکٹر ذکاء اللہ خان