انجان لوگ

انجان لوگ

انجان لوگ

بیتے دنوں کو بہت کم سوچا جاتا ہے،البتہ مڑ کر ضرور اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہاں مگر ”حال” میں اُلجھنے کی بجائے اس طرح سے دیکھنا ہوتا ہے کہ مستقبل کی تفہیم کسی حد تک ممکن ہو سکے۔ گو کہ حال، ماضی اور مستقبل وقت کے ہی نام ہیں لیکن وقت اور زندگی کے فلسفے کی بحث میں اب ہم کو یوں محسوس ہونے لگا ہے گویا وقت قائم رہتا ہے اور بس ہم گزر جاتے ہیں۔ یہ عمل بھی جاری ہے کہ لڑکپن و جوانی میں انسان مستقبل کے ساتھ اپنی اُمیدیں وابستہ کر کے خوش رہنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتا ہے لیکن جب انسان بوڑھا ہوتا ہے اور آخری منزل سامنے نظر آتی ہے تو وہ خوف زدہ ہو کر ماضی میں پلٹ جاتا ہے اور ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ زندگی زندہ انسانوں سے عبارت ہے۔ اپنے بزرگوں عزیز و ںاور دوستوں کے علاوہ انسان اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں سے ملتا ہے۔ اس میل جول ،راہ و رسم اور ملاقاتوں کی اپنی نوعیت ہوتی ہے اور ہر تعلق کی الگ سے ایک نسبت ہوا کرتی ہے۔ ذاتی اور اجتماعی حوالے سے معاشرہ میں مختلف خیالات ،عادات اورپس منظر رکھنے والے افراد سے واسطہ رہتا ہے۔ کسی سے کم ملنا جلنا تو کسی سے زیادہ میل ملاپ۔ کبھی کسی سے ضرورت کے لیے ملنا پڑتا ہے تو کہیں بس آتے جاتے ملاقات ہو جاتی ہے۔ روزمرہ کے معاملات طے کرنے میں بہت سے لوگوں کی قربت بھی یاد نہیں رہتی اور کچھ لوگ اپنی دو چار ملاقاتوں میں اپنا نقش و نگار چھوڑ جاتے ہیں۔ اہل دانش کا کہنا ہے کہ ادب، آرٹ اور کلچر میں وقت کا تصور ہماری دُنیا کے زمانی تصور سے مختلف ہوتا ہے ، ایسے میں چند اہم تخلیق کار اور فنکار ہمارے شعور میں موجود ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی مگر انکار نہیں کہ زندہ وہی رہتے ہیں جن میں زندہ رہنے کی سکت ہوتی ہے ورنہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے کردار اور ان کی باتیں زمانے کی دھول میں گم ہو جاتی ہیں۔ میری یادوں میں ایسے بہت سے لوگ بھی زندہ ہیں جو میرے عزیز یا دوست نہ تھے اور اُن سے کوئی ربط بھی نہ تھا ۔بس وہ میرے شہر میں رہتے رہے ، اُنہیں آتے جاتے دیکھتا اور کبھی کبھار علیک سلیک بھی ہو جاتی۔ ان میں کچھ لوگ اپنے مخصوص وضع قطع ، چال ڈھال ،کردار اور باتوں کی وجہ سے پہچان رکھتے ہیں جبکہ ان کے نام مجھے یاد نہیں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون تھے اور اب کہاں ہیں۔ اپنے فرائض منصبی کے دوران جن علاقوں میں رہا تووہاں بھی بے شمار ایسے لوگ ملے جو دفتری امور کے حوالہ سے متعارف ہوئے اور ایک رسمی سی ملاقات کے بعد چلے گئے۔ ہر علاقہ میں رہنے والے اپنے اپنے معاشرتی ،سماجی اور تہذیبی برتاؤ، لباس اور زبان میں گفتگو کرتے ہوئے سامنے آئے۔ اجنبی دیاروں میں اجنبی لوگوں کو دیکھا ، چند چہرے ابھی تک آنکھوں میں ہیں اور کئی باتوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں اپنی طالب علمی اور مختلف علاقوں میں اپنی تعنیاتی کے دوران ملنے والے ان انجان کرداروں سے میرا براہ راست کوئی تعلق نہ تھا مگر اپنے اپنے حوالے سے مجھے اب تک یاد ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جن کے نام بھی مجھے یاد نہیں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہیں یا مرگئے ہیں۔ مَیں نے انہیں برسوں سے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں یہ لوگ رہتے تھے۔ بس یادوں میں زندہ ہیں۔ کبھی کسی کی کوئی نرالی سی حرکت یاد آجاتی ہے تو کبھی کوئی کسی ایک خاص واقعہ کی وجہ سے یادآجاتا ہے۔ اپنے شہر کے بازاروں میں دکان سجائے ہوئے دکاندار، ہوٹلوں میں کام کرنے والے ملازم، ریڑھی لگانے والے، سائیکل رکشا چلانے والے، گلی کوچوں میں صدائیں دینے والے اور بھیک مانگنے والے فقیروں میں کئی چہرے آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں ۔ ان سے کبھی کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی مگر ان کے چہرے اور کام کے حوالے یاد ہیں۔ جنرل پوسٹ آفس کے سامنے ایک فقیر بیٹھا ہوتا ،جب بھی گزرتے ہوئے کچھ پیسے دیتا تووہ ہمیشہ سرائیکی زبان میں ایک ہی دعائیہ جملہ کہتا کہ ” لوڑ دی تھوڑ نہ پووی” (یعنی ضرورت کے وقت کسی چیز کی کمی نہ آئے)۔ یہ جملہ سنتے ہی مجھے طمانیت کا احساس ہونے لگتا۔ چند ایسے کردار بھی یاد ہیں جو ذہنی اعتبار سے کمزور تھے۔ آس پاس کے لوگ اُن سے مذاق کرتے،ڈانٹے اور تحقیر بھی کیا کرتے۔ مگر وہ اپنی دھن میں رہتے، ہنستے اور مسکراتے۔ کبھی سر نیچے کیے خاموشی سے گزر جاتے تو کبھی کسی سے بلا وجہ اُلجھ پڑتے۔ ایک عرصہ ہوا کہ اب دکھائی نہیں دیتے یقیناً یہ دُنیا چھوڑ گئے ہوں گے کہ سب نے چلے جانا ہے۔ بس یادیں رہ جاتی ہیں اور پھر یاد کرنے والے بھی نہیں رہتے۔
اٹھی تھی پہلی بار جدھر چشمِ آرزو
وہ لوگ پھر ملے نہ وہ بستی نظر پڑی