111612192 2e345b15 271e 4348 862f a8ffe4e073f7

موبائل فون کے زریعے کرونا وائرس سے کیسے بچا جاسکے گا ؟

ویب ڈیسک : موبائل فون کے زریعے کرونا وائرس سے کیسے بچا جاسکے گا ؟

ایپل اور گوگل ںے ایسے منصوبے پر کام کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے نتیجے میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کو علم ہو سکے گا کہ ان کے آس پاس کوئی کرونا وائرس میں مبتلا شخص تو نہیں۔

یہ پہلا موقع ہوگا کہ ایپل اور گوگل مل کر کام کریں گی۔ صحت عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کاروبار زندگی کو دوبارہ معمول پر لانے کے لیے ایسی ٹیکنالوجی انتہائی ضروری ہے۔

ایپل اور گوگل ایسی ایپ کے لیے بلوٹوتھ کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو عام طور پر دو موبائل فونز میں رابطے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن نئے منصوبے میں انھیں کرونا وائرس کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ ایپل اور گوگل خود کوئی ایپ نہیں بنائیں گے۔ لیکن، صحت عامہ کے ماہرین کو ایسی ٹیکنالوجی فراہم کریں گے جس سے وہ خود اپنی ایپ بناسکیں گے۔

کرونا وائرس میں مبتلا افراد اپنے فون کو رضاکارانہ طور پر اپنی بیماری کے بارے میں بتائیں گے۔ ایپ کسی شخص کی شناخت اور لوکیشن ظاہر نہیں کرے گی اور نہ ہی حکومت یا کسی ادارے کو فراہم کرے گی۔ اس کا مقصد صرف اردگرد موجود لوگوں کو محتاط کرنا ہوگا جس کے لیے ان کے فون پر اطلاع دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  مہوش کی بھارتی گلوکار کیساتھ نئے پراجیکٹ کی تفصیلات

ایپل اور گوگل مئی کے وسط تک سافٹ وئیر ڈویلپرز کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کردیں گے۔ بعد میں ایپل اور گوگل آئی فون اور اینڈرائیڈ کے لیے آپریٹنگ سسٹمز کو بھی اپ ڈیٹ کریں گے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ایپ ہر چند منٹ بعد کرونا وائرس میں مبتلا شخص کے قریب موجود لوگوں کے فون پر سگنل بھیجے گی تاکہ وہ خبردار ہوجائیں۔

آئی ٹی ماہرین کا خیال ہے کہ ایپل اور گوگل صرف بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔ بعد میں یہ کام صحت عامہ کے ماہرین کا ہوگا کہ وہ کتنی جلد ایپس بنواتے ہیں اور عام لوگ کس حد تک ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ اور اس میں مبتلا لوگوں کا فون ایپ کو رضاکارانہ طور پر آگاہ کیے بغیر اس منصوبے کو کامیابی نہیں مل سکتی۔

دونوں کمپنیوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مل کر کام کرنے کے لیے اس سے اہم وقت نہیں ہوسکتا، تاکہ دنیا کو لاحق بڑے مسئلے کا حل ڈھونڈا جائے۔ حکومتوں، صحت عامہ کے ماہرین اور سافٹ وئیر ڈویلپرز کے ساتھ قریبی تعاون سے ہم امید کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر کی حکومتوں کو ایسی مدد دے سکیں گے کہ وہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ سست کریں اور معمول کی زندگی کی طرف واپسی میں تیزی آئے۔

مزید پڑھیں:  چین کے 20 ہزار سینیما گھروں میں 12ویں فیل ریلیز کرنے کا فیصلہ

اس سے پہلے فیس بک کی انتظامیہ بھی کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں مدد کے لیے اپنے صارفین کا ڈیٹا استعمال کرنے کی پیشکش کرچکی ہے۔ ایپل اور دوسری کمپنیوں نے ایسی ایپس بنائیں جن سے لوگ علامات کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ وہ کرونا وائرس میں مبتلا تو نہیں۔ گوگل نے 131 ملکوں میں موبائل فون استعمال کرنے والوں ڈیٹا جاری کیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ لوگ کہاں سفر کررہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے جرنل سائنس میں ایک مقالے میں لکھا تھا کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ اس قدر تیز ہے کہ اسے مینوئل طریقے سے روکنا مشکل ہے اور اس کے لیے بلوٹوتھ جیسی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی۔

سنگاپور میں گزشتہ ماہ ایسی بلوٹوتھ ٹریکنگ ایپ کا استعمال کیا گیا جو کسی شخص کے وائرس میں مبتلا ہونے سے دوسروں کو آگاہ کرتی ہے۔ وہاں اس کی کامیابی کے اشارے ملے ہیں۔ جرمنی اور فرانس سمیت یورپی ملکوں میں بھی ایسی ٹیکنالوجی کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے۔