تاریخ ِپشاور کے گمشدہ اُوراق سے ‘پری چہرہ’ کی کہانی ڈھونڈ نکالنے والوں نے جس غیرمشروط محبت کا ثبوت دیا ہے، وہ رہتی دنیا تک یادگار رہے گی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اندرون کوہاٹی گیٹ ‘پری چہرہ’ نامی ملکہ کا مزار اُور اِس سے ملحقہ قبرستان، کی اراضی ہتھیانے کا منصوبہ بنایا گیا تو اِس کوشش کے خلاف 1995ء میں عدالت نے ڈگری جاری کی اُور اِس کے بعد 27 سال مقدمے کی کاروائی کا فیصلہ ‘پشاور کے حق’ میں آیا۔ یہ فیصلہ تین دہائیوں تک عدالت اُور دیگر محاذوں پر جنگ والے ”اخونزادہ مظفر علی” کی پشاور سے محبت اُور صداقت کا ایسا بیان ہے کہ تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اخونزادہ مظفر نے صرف آئینی اُور قانونی طور پر ہی نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ کو مستند (ناقابل تردید) تاریخی حوالوں اُور نایاب نقشہ جات (گواہیوں) سے بھی ثابت کیا ہے اُور شاید ہی پشاور کی تاریخ میں ایسا کوئی ایک بھی اجتماعی و عوامی مفاد کا مقدمہ یوں فیصلہ ہوا کہ طویل اعصاب شکن عدالتی کاروائیوں میں ایک طرف سرمایہ مافیا تھا جنہوں نے پانی کی طرح پیسہ بہایا اُور جن کا اثرورسوخ بھی نمایاں تھا۔ جنہوں نے ہر عدالتی مرحلے میں دھونس، رعب اُور بدمعاشی کے ذریعے ‘پشاور’ کا مقدمہ لڑنے والے اپنے فریق کو مرعوب (مختلف قسم کے دبائو ڈال کر خوفزدہ) کرنے کی بھی کوشش کی اُور اب جبکہ عدالت نے ڈگری خارج کر دی ہے تو ‘پشاور دوست فریق’ کے مقابلے ذاتی مفادات کے اسیروں نے کروڑوں روپے کی پیشکش کرنے جیسی جرأت و جسارت بھی کی ہے لیکن شاید وہ بھول گئے ہیں کہ اُن کا سامنا ایک ایسے کردار سے ہے جو پشاور کو اپنی دھرتی ماں سمجھتا ہے اُور پشاوری کتنے ہی مادہ پرست اُور اپنے شہر سے لاتعلق ہو جائیں وہ کم سے کم اپنی ماؤں کا سودا نہیں کرتے۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مقدمہ بظاہر 24 مرحلے اراضی کا تھا’ جس کے ایک فریق کے دعوے کو عدالت نے قانونی، آئینی اُور تاریخی طور پر درست قرار دیا اُور ثابت ہوا کہ ‘‘اندرون کوہاٹی مذکورہ قطعہ ”قبرستان کی اراضی” ہے جو فارس (موجودہ افغانستان) کے بادشاہ نادر شاہ افشار کی وقف کردہ اراضی ہے اُور یہاں اُس نے اپنی محبوب و مکرم اہلیہ (ملکۂ وقت) پری چہرہ کا مزار بنایا تھا۔ 1739ء میں جب بادشاہ نادر شاہ کا پشاور سے گزر ہوا اُور یہاں لشکر سمیت مختصر پڑائو کے دوران اُن کی اہلیہ ‘پری چہرہ’ بیمار پڑ گئیں جن کا بعدازاں انتقال ہوا اُور اُنہیں اُس وقت کے شاہی اعزاز کے ساتھ شاہی باغ کے ایک حصے میں (جو کہ ملکۂ وقت کے شایان شان جگہ تھی) سپرد خاک کر دیا گیا۔ وقت کی گرد اُور زمانے کی لالچ بڑھی تو ‘پری چہرہ’ کے مزار سے متصل باغ کی اراضی پشاور کے قبرستانوں کی طرح قبضہ ہوتی چلی گئی۔ یہ مقام اندرون کوہاٹی گیٹ سے شروع ہو کر کوچی بازار کے درمیان پٹی کی صورت پھیلا ہوا ہے اُور کوہاٹی گیٹ یعنی پری چہرہ کے مزار سے شروع ہوتا ہے۔ ایک عرصے سے دبی آواز میں دوست احباب نجی محافل میں یہ مطالبہ بصورت تذکرہ کرتے رہے تھے کہ پری چہرہ مزار اُور اِس سے متصل قطعۂ اراضی کی اصل حالت و حیثیت میں حفاظت اُور بحالی ہونی چاہئے لیکن کسی میں ہمت یا شاید اِس قدر فرصت نہیں تھی کہ اِس سلسلے میں قانونی و تاریخی جنگ کے لئے خود کو پیش کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ وقت کے ساتھ تاریخ پشاور کے اِس اثاثے پر گمنامی کی گرد پڑتی رہی اُور ایک وقت وہ آیا جب پشاور کی ہر خوبی اُور ہر اثاثے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کی نظریں ‘ملکہ پری چہرہ کے مزار پر جا ٹھہریں، اُور اِس مقام پر کثیر المنزلہ کاروباری (کمرشل) عمارت تعمیر کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ تعمیراتی نقشہ جات تک منظور کروائے گئے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں قبرستانوں کی سینکڑوں کنال اراضی ہڑپ کر لی گئی ہو وہاں چند مرلے رقبے کی وقعت یا اِس کی اہمیت بارے توجہ دلانے کی اہمیت ہونے کے باوجود بھی یہ بظاہر غیراہم دکھائی دینے لگتا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی عدالتوں اُور انصاف کے نظام کے مقابلے انصاف کا ایک نظام قدرت کی جانب سے بھی جاری و ساری ہے جس میں فیصلے جاری کئے جاتے ہیں اُور اِن فیصلوں کو دنیاوی عدالتوں میں ثابت کرنے کے لئے غیب سے اسباب اُور مدد فراہم ہوتے رہتے ہیں۔ تب مشکل مشکل اُور پریشانی’ پریشانی نہیں رہتی کیونکہ جب محبت غالب آ جائے تو پھر کوئی دوسرا جذبہ اپنے پاؤں نہیں جما سکتا۔
پری چہرہ مزار، اور اِس سے ملحقہ قطعہ اراضی (قبرستان) ہتھیانے کی نہایت ہی منظم اُور سوچی سمجھی سازش ناکام ہونے کے بعد کم سے کم یہ بات تو ممکن ہو گئی ہے کہ آئندہ کوئی بھی ایسی کوشش کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ تمام تر متعلقہ قانونی اُور تاریخی دستاویزات نہ صرف عدالت کے زیرغور آ چکی ہیں بلکہ یہ مقدمے کی کاروائی کا حصہ بھی ہیں جسے درحقیقت ‘تاریخ پشاور کا گمشدہ باب‘ قرار دینا چاہئے کہ اچانک ”تاریخ ِپشاور” کی خاموش سطریں بول پڑی ہیں اُور اِن کے بیانات کو جھٹلانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان سے قبل پشاور صرف فصیل شہر کے اندرونی آباد علاقوں پر مشتمل ہوتا تھا جنہیں مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا اُور اراضی کے اِس قدیمی بندوبست میں فصیل شہر کے اندر اُور باہر کے علاقے جو کہ الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم تھے اِن میں شامل ”ٹکڑا نمبر 3” اندرون کوہاٹی گیٹ سے سرکی تک اُور اندرون کوہاٹی و بیرون کوہاٹی (سٹی سرکلر روڈ) کے علاقے شامل تھے جو وسیع عریض رقبے پر پھیلا (تاحد ِنظر) قبرستان ہوا کرتا تھا۔ بعدازاں کوہاٹی گیٹ کے ساتھ اِس سے جڑی پولیس چوکی ختم ہوئی اُور اِس چوکی کی جگہ عارضی عبادت اُور چند دکانیں تعمیر ہوئیں’ جن پر ‘میونسپل کارپوریشن (پشاور کے فیصلہ ساز و خود مختار ادارے)’ نے تجاہل عارفانہ اختیار کیا اُور وقت کے ساتھ یہ عارضی تعمیرات پختہ و مستقل ہو گئیں جنہیں 3 دہائیوں کے بعد مزید وسعت دینے کے لئے ‘پری چہرہ مزار و ملحقہ قبرستان’ کی اراضی کا بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ‘چائنا کٹنگ’ کا سلسلہ جاری ہے اُور اِس سلسلے کی تازہ ترین کوشش ‘پری چہرہ کے مزار’ اُور یہاں کے باقی ماندہ قبرستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی ایک ناکام ہوئی کوشش کی صورت سامنے آیا ہے۔ بنیادی وجہ اہل پشاور کا مجرمانہ سکوت ہے، اُور اِس روش کو تبدیل ہونا چاہئے۔ یہاں کے وسائل پر سیاسی’ سماجی اُور مالی طور پر تسلط پانے والے اغیار جانتے ہیں کہ پشاور اُور اہل پشاور کی قیادت نہیں رہی۔ پشاوری کسی قوم کا نام نہیں۔ پشاوری اپنی مادری ہندکو زبان سے ہر دن دور ہو رہے ہیں۔ پشاور کے تاریخ و ثقافت ‘ آثارقدیمہ’ وسائل اُور اثاثوں کا کوئی والی وارث (سرپرست) نہیں اُور اہل پشاور کا ایک تعارف ایسی سفید پوش ہستیوں (نفوس عالیہ) کی صورت بھی کیا جا سکتا ہے، کہ جن کی منہ میں زبان اُور آنکھوں میں خواب نہیں رہے! پشاوریوں کی اکثریت یا تو نقل مکانی کر چکی ہے یا پھر غیرضروری احساس کمتری کے باعث خاموش ہے لیکن پشاور کے حالات دیکھ کر بہت سے دل آج بھی خون کے آنسو روتے ہیں اُور شاید ایسے ہی (دل ہی دل میں) حرف ِدعا رکھنے والوں کی التجائیں مستجاب ہوئی ہیں اُور ‘پری چہرہ مزار’ کے نشانات ہمیشہ کے لئے ختم ہونے سے بچ گئے ہیں۔ یہ نکتۂ خاص اپنی جگہ اہم ہے کہ اہل پشاور اِس بات کے لئے مجرم ضرور ہیں کہ اِنہوں نے دیگر اقوام کی طرح اپنی نئی نسل کو ”تاریخ ِپشاور” بطور ورثہ اُور اثاثہ منتقل نہیں کیا۔ آج کے اُفقی نصاب ِتعلیم میں کوئی ایک بھی سبق ایسا نہیں ملتا جو پشاور کی سرزمین اُور یہاں کی تاریخ سے متعلق ہو تو پھر کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ پشاور کی محبت کے چراغ دلوں میں روشن رہیں گے اُور پشاور کی تاریخ سینہ بہ سینہ’ نسل در نسل ازخود منتقل ہوتی چلی جائے گی، یہ کوئی خواب نہیں حقیقت ہے۔ محبت و تعلق دلی ہوتا ہے، زبانی کلامی مشروط اُور محتاج ِتعارف نہیں۔ اِسی محبت کے اظہار کے لئے شعوری کوششیں اُور مزید محنت کی ضرورت ہے کہ پشاور کی محبت کے چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ چل نکلے۔ ”عکس کا ہونا ہے مشروط ترے ہونے سے خود کو پہچان مگر عکس کو حیرت نہ بنا ۔”
(یونس تحسین)