افغآنستان میں طالبان کیجانب سے دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے برقع کی پابندی کے ہدایت نامے کے بعد افغانستان میں موجود غیر ملکی صحافی نے برقع خریدنے کے لیے بازار کا رُخ کر لیا ۔
فوٹو اور انویسٹیگیٹو جرنسلٹ لینزی بلنگ نے انسٹاگرام پر افغانستان کے مخصوص ’شٹل کوک‘ برقعوں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ برقع لینے دُکان پہنچی ہیں۔ لینزی بلنگ نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں مسلسل سفر کے لیے اپنا پہلا برقع خرید رہی ہیں، اور افغانستان میں اس برقع کی قیمت چھ ماہ میں تین گنا بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ برقع پہننا یا نہ پہننے کا انتخاب انسان کا اپنا ہونا چاہیے، میرے لیے یہ ہمیشہ اہم رہا ہے کہ جب میں سڑکوں پر افغانیوں کا انٹرویو کر رہی ہوتی ہوں تو لوگ مجھے اسی طرح دیکھتے ہیں جیسے میں انہیں دیکھتی ہوں۔ برقعے کے بغیر افغانستان میں برسوں کام کرنا اور اپنے سفر کو کامیاب بنانا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
خیال رہے لینزی کی پیدائش پاکستان میں ہوئی، لیکن اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ یروشلم میں گزرا۔ انہوں نے لندن یونیورسٹی میں فوٹو گرافی کی تعلیم حاصل کی اور پھر اس کے بعد سے وہ فوٹو ایڈیٹر اور فوٹو جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔لینزی کو عالمی اور سماجی ثقافتی موضوعات میں دلچسپی ہے اور ساتھ ہی وہ سیاسی اور تنازعات کی فوٹو گرافی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
یاد رہےگزشتہ دنوں طالبان کی مذہبی پولیس نے سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو متنبہ کیا تھا کہ دفتر میں خود کو مکمل طور پر ڈھانپ کر آئیں اور اس کے لیے کپڑا نہ ہو تو کمبل اوڑھ کر آجائیں۔