بدل رہا ہے جہاں

بدل رہا ہے جہاں ۔۔۔

کورونا کی جان لیواوبانے ہماری سماجی زندگی کے کیمیاوی عمل میں عمل انگیز(Catalyst)کا کام کرتے ہوئے نہ صرف ہماری سماجی، بلکہ معاشی زندگی کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔اور اس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ فائدہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کو ہوا ہے کہ جس نظام کا مطمع نظر ہی انسان کو کنزیومر بنانا ہے ۔ گزشتہ کئی صدیوں سے انسان کی فطری حیثیت کو تبدیل کرنے اور اسے کارپوریٹ کلچر کے تحت ملٹی نیشنل کے اختیار میں دینے کی کوششیں جاری تھیں ۔ جس پرکورونا کی عالمی وبا نے عمل انگیز کے طور پر کام کرتے ہوئے حتمی مہر لگادی ہے ۔ اور دنیا کو مکمل طور پر کارپوریٹ ورلڈ بنادیا ہے ۔ پوسٹ کورونا سٹڈی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا سے سرمایہ دار کے سرمائے میں مذید اضافے ہوئے ہیں جبکہ غربت میں اسی تناسب سے اضافے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا تو پہلے سے ہی اس کارپوریٹ کلچر کے چنگل میں جاچکی تھی لیکن کم وسائل والی تیسری دنیا بھی اس وبا کے بعد اس جانب رخ کر گئی ہے ۔ امریکہ جیسے مضبوط اکانومی والے ملک میں عام آدمی گھر ، گاڑی اور دیگر اشیاء قرضوں پر حاصل کرنے کے بعد زندگی بھر ان قرضوں کی قسطیں بھرتے رہتا ہے ۔ ماضی میں سرمایہ دارقوتیں کمزور قوموں کو کالونی بنا کر اس کے وسائل ہڑپ جاتی تھیں لیکن جمہوریت کے دیو استبداد کے پنپنے کے ساتھ ہی ہیومن رائٹس کا ڈھکوسلہ سامنے آیا سو کالونلزم کو ختم ہونا پڑا مگر سرمایہ داری نظام مزید تقویت پانے لگا۔ اب حکومتوں کی جگہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پوری دنیا پر راج کرنے لگیں ۔دنیا کی اکانومی پر انہی کھرب پتی اداروں کی اجارہ داری ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اتنی طاقتور ہوچکی ہیں کہ وہ ممالک کی پالیسیو ں تک یہی ملٹی نیشنل کمپنیاں اثر انداز ہوتی ہیں ۔اپنا مال بیچنے کے لیے یہ کارپوریٹ کمپنیاں قوموں کی سوچ تک کو بدلنے کے لیے ایسے ایسے جھوٹ بولتی ہیں کہ ذہن خود بہ خود اسی جانب راغب ہوجاتے ہیں ۔ یہ مفروضہ بھی دل کو لگتا ہے کہ امریکہ کی ہتھیاروں کی انڈسٹری کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہروقت دنیا میں جنگ کی ایک ضرورت رہتی ہے کہ جو انڈسٹری امریکہ کی اکانومی کو ہزاروں بلین ڈالرز فراہم کرتی ہے ۔جبکہ اسی کارپوریٹ ورلڈ میں جنگ کو بھی ایک باقاعدہ انڈسٹری تصور کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ جنگ میں بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ کارپوریٹ دنیا ایسی دنیا ہے کہ جس میں عام آدمی ان ملٹی نیشنل اداروںکے لیے کماتا ہے ۔اور جو کچھ کماتا ہے یہ ادارے اس سے ہتھیا لیتے ہیں ۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندستان کی لوکل ماکیٹ کو برٹش مارکیٹ میں تبدیل کرنے کے لیے یہاں کے دستکاروں کے ہاتھ تک کاٹنے سے گریز نہیں کیاتھا اور ہندوستان کا ہی خام مال برطانیہ لے جا کر وہاں سے کپڑا وغیرہ ہندوستانیوں پر بیچنا شروع کیا لیکن یہی کام کارپوریٹ دنیا میں میڈیا کے ذریعے کیا جانے لگا ہے ۔ میڈیا کے لیے اشتہار ہی آکسیجن ہے اور ملٹی نیشنل ان اشتہاروں کے ذریعے ناظر کوخواب بیچتی ہیں ۔ ایک شاندار زندگی کاخواب ۔ انڈین کرکٹ بورڈ نے انڈین پریمیئر لیگ کے براڈ کاسٹ رائیٹس 5بلین ڈالر میں فروخت کئے ہیں ۔یعنی حد ہے ۔پورا انڈیا اور انڈیا سے باہر کروڑوں لوگ جب آئی پی ایل کے میچ دیکھ رہے ہوں گے توشیمپو، گورا کرنے والی فیس کریموں ۔ڈبہ بند دودھ سے لیکر لگژری کاروں کا ایک بازار گرم ہوگا ۔ میچ دیکھتے دیکھتے ناظر اپنے لیے مختلف برانڈز بھی منتخب کرتا رہے گا ۔ خیردیسی اور ولائتی کا تفرق تو بہت پہلے ہی شروع ہوچکا ہے ۔ اب ہم امپورٹڈ کے پیچھے بھاگنے لگے ہیں ۔ کارپوریٹ کلچر نے جدید رجحانات کو اتنا بڑھاوا دے دیا ہے کہ خود ہم ہماری رہتل پر احساس کمتری کا شکار ہوگئے ہیں ۔ سو میڈیا نے ہمارے لیے کچھ ایسے معیار سیٹ کر دیے ہیں کہ ہم انھیں ہی اصل سمجھنے لگے ہیں ۔ اور اس نئے لائف سٹائل کو حاصل کرنا ہی اصل زندگی سمجھنے لگے ہیں ۔شہری زندگی بھی تو ویسی نہیں رہی لیکن ہمارے دیہات بھی ویسے نہیں رہے جیسے ہوا کرتے تھے ۔ایک زمانے میں کم از کم دیہات میں گھر میں مال مویشی موجود ہوتے تھے ۔ ڈیری اور پولٹری پراڈکٹس میں دیہات خود کفیل تھے ۔ لیکن اب دیہات میں بھی لوگ مال مویشی پالنا عام نہیں رہا ۔ حالانکہ وہی کھیت کھلیان اب بھی قائم و دائم ہیں ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دیہات میں ایکٹروں اراضی موجو دہو اور لوگ ٹیٹرا پیک کا دودھ پئیں اور ایکسپائری ڈیٹ لکھے ہوئے فارمی انڈے کھائیں ۔یہی کمال کارپوریٹ کلچر کا ہے ۔خالص دودھ کو مضر صحر قراردے دیا گیا اور پولٹری کو لائف سٹائل سے نکال دیا گیا ۔ 1961میں پاکستان کی ڈیری پراڈکٹ کی امپورٹ 2ملین ڈالر تھی جبکہ بتدریج بڑھتے بڑھتے اب یہ امپورٹ 2019 میں 140ملین ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے اور ان ڈیر ی پراڈکٹس میں سب سے زیادہ پاکستانی امپورٹڈ پنیر کھاجاتے ہیں۔جو عموما مغربی طرز کے کھانے میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ کارپوریٹ دنیا کا سب سے بڑا وار جو عام آدمی پر ہوا ہے وہ برانڈازم ہے ۔ ہمیں برانڈز کا دلدادہ بنا دیا گیا ۔ ہماری پوشاک ، خوراک اور دیگر ضرورتیں جو عام کاریگر اور ہنر ور پوری کرتے تھے ، جس میں ہمارا اپنی حس جمال بھی کارفرماہوتی تھی اب وہ کام برانڈز نے کرنا شروع کردیا ہے ۔ ہماری جیب سے نکلنے والا پیسہ نیشنل و ملٹی نیشنل برانڈزکی جیبوں میں چلا جاتا ہے ۔ گلی محلے کا کاریگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھ گیا ہے ۔ اور اب اس آن لائن شاپنگ نے تباہی مچا دی ہے ۔ گھر بیٹھے اچھی بری چیزیں خریدلو۔ اس میں بھی فائدہ ملٹی نیشنل کا ہو اکہ آن لائن مار کیٹ میں بھی لوکل کی بجائے ملٹی نیشنل ہی زیادہ منافع کماسکتی ہیں ۔ کورونا کے بعد پوری دنیا پر کارپوریٹ نیٹ ورک مذید مضبوط ہوا ہے ۔ اگر یہ کورونا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے انقلاب سے قبل آیا ہوتا تو صورت حال شاید مختلف ہوتی لیکن انٹرنیٹ مارکیٹنگ نے عام مارکیٹنگ کی صورت اور ڈائنامکس کو یکسر بدل دیا ہے ۔اقتصادیات کا تعلق بھی براہ راست سماجیات سے ہوتا ہے ۔ اب جبکہ سوشل میڈیا نے ہماری سماجیات کو ایک نیااور منفرد اندا ز دے دیا ہے سو اس نئی سماجیات کے اثرات ہماری اقتصادیات پر کیسے نہ پڑیں ۔ کارپوریٹ دنیا اس بات کو ہم سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہے سو اس کا فائدہ کارپوریٹ دنیا نے خوب اٹھایا ہے ۔ یہ عمل ابھی جاری ہے اور وقت ہی بتائے گا کہ زندگی اور کس کس رنگ میں اور کس کس ڈھنگ میں تبدیل ہوتی ہے کیونکہ ہم جیسے پسماندہ لوگوں نے اس تبدیلی کو قبول کرلیا ہے تو باقی تو پہلے ہی سے آمادہ ہیں تبدیلی پر ۔