آزادیِ اظہار کی مشعل

آزادیِ اظہار کی مشعل

دو عشرے قبل جب الیکٹرانک میڈیا پرقومی اور سیاسی معاملات پر اظہار کرنے کا جو کھلا ڈھلا انداز اختیار کیا گیا تو لوگوں نے جہاں ایسی خبروں اور مباحثوں میں دلچسپی لینی شروع کی وہاں برسراقتدار فوجی حکمران کی تعریفیں کرنے لگے کہ پہلی بار قومی میڈیا کو آزادی ملی ہے۔ اس حوالہ سے ہمارے ایک پروفیسر دوست کے کچھ تحفظات تھے ۔ اول تو وہ اس کے مجموعی ایجنڈا کو شک کی نگاہ سے دیکھتے اور پھر ساتھ ہی اس کی اصلاح کے بارے بڑی مدلل باتیں کیا کرتے ۔ اُنہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ آنے والے دنوں میں اس بے لگامی کے نامناسب نتائج مرتب ہوں گے۔ اُنہیں گمان گزرتا کہ یہ کیسی آزادی ہے، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے صبح شام حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اور ارباب اختیار کے خلاف خوب باتیں کی جاتی ہیں مگر حکومت خاموش رہتی ہے جبکہ میرا پڑوسی شاعر اپنی نظموں اور غزلوں میں تشبیہات کا سہارا لے کر مزاحمت کرتا ہےتو پولیس اور سپیشل برانچ والے اُسے اپنا مہمان بنالیتے ہیں۔ آج کل پروٹیکشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس پر جاری بحث کے حوالے سے مجھے پروفیسر دوست یاد آئے۔ پیکا آرڈیننس کا معاملہ اب عدالت عالیہ میں ہے۔ حکومتی استدلال ہے کہ جھوٹی اور جعلی خبر کو روکنے کی وجہ سے یہ قانون بنایا گیا ہے ۔یہ جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا اور خلاف ورزی کرنے والے کوسخت سزا دی جا سکے گی۔ اس کا پس منظر یہ ہے بلکہ اب تو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہہ دیا ہے کہ خاتونِ اول کے حوالے سے غلط اور جھوٹی خبر چلائی گئی ہے۔ دوسری طرف صحافی’ اپوزیشن اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پیکا کو کالا قانون کہتے ہوئے احتجاج کر رہی ہیں۔ دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں حکومت پر تنقید کرنا اہل صحافت کا بنیادی حق ہے۔ ملک کے حالات سے عوام کو باخبر رکھنا اور اہم موجودہ مسائل پر رائے عامہ کو منظم کرنا دراصل قوم کی جانب سے صحافت پر ایک فرض عائد ہوتا ہے۔ پاکستان میں اخبار نویس آزادیِ صحافت کو ایک اخلاقی حق تصور کرتے ہیں جو اخلاقی فرائض اور ذمہ داریاں بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اس قوم کو میراث میں ملنے والے لاتعداد قوانین کے باوجود آنے والی ہر حکومت خاموشی مسلط کرنے کے لیے ”قومی مفاد” کا جواز پیش کرتی رہی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے کو آزادانہ اور برسرِعام اختلافِ رائے حق کی حفاظت کے مقابلے میں زیادہ نازک نوعیت کی ترجیحات درپیش ہیں۔ اسی باعث پہلے مارشل لا سے لے کر اب تک خوفناک پریس قوانین نافذ کیے جاتے رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سیاسی عمل میں جو بگاڑ پیدا ہوا ، سازشوں اور آمریت کے اثرات جو ابھی تک مختلف امراض کی صورت میں موجود ہیں۔ اس میں صحافت کا مزاحمتی اور پیشہ ورانہ کردار قابلِ ستائش رہا ہے۔ ہاں ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ آزادیِ اظہار کے خلاف مرتب کی جانے والی پالیسیوں اور اقدامات میں ہر حکومت کی مدد کرنے پر صحافتی شعبہ کے چند عناصر کی آمادگی اور مستعدی شامل رہی ہے۔ یہ ہماری صحافتی تاریخ سے واضح ہے کہ صحافت نے بہت سی رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود عوام کے حقوق کی حفاظت کا متعینہ کردار ادا کیا ہے۔ ایسے بہت سے بلند پایہ صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے کبھی اپنے قلم کا سودا نہ کیا اور قیدوبند کی سختیاں برداشت کیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ لوگ اُن عناصر کی طرف انگلیاں اُٹھانے لگے جو انعام و اکرام سے فیضیاب ہوئے ، ڈر کے مارے درباری بنے اور اپنے باوقار پیشہ کی لاج نہ رکھ سکے۔ یہ جمہوریت کے وسیع تجربے کے بعد ہی ممکن ہوگا کہ صحافت اپنی وہ آزادی دوبارہ حاصل کر سکے جس کا مظاہرہ اس نے ابتدا میں کیا تھا۔ خرابی حکومت کی جانب سے کھلے یا پوشیدہ طور پر لگائی جانے والی پابندی اور میڈیا میں متانت اور ذمہ داریوں کی کمی، دونوں میں پائی جاتی ہے۔ان دو عشروں میں حکومت اور میڈیا کے تعلقات میں خلا پیدا ہو چکا ہے کیونکہ اس دوران ہر حکومت کی خواہش رہی کہ میڈیا ان کی منشا کے مطابق چلے۔جب ایسا نہ ہوا تو بہت سے صحافیوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اب نئے آرڈیننس کو مرتب کرنے کی ضرورت پیش آئی تو یہ لازمی تھا کہ صحافی تنظیموں ، الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو اعتماد میںلیا جاتا اوراُن سے مشاورت کی جاتی۔ پیکا کے ترمیمی آرڈیننس کے مطابق صحافی اور غیر صحافی میں تفریق اور تشریح کا اختیار حکومت کے پاس ہو گا۔جس کے تحت مزاحمتی صحافیوں کو غیر صحافی قرار دیا جا سکے گا۔ یہاں یہ بات سمجھنے والی ہے کہ سوشل میڈیا کا صحافت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ یہ سوشل میڈیا یقیناً پگڑی اچھال بنتا جا رہا ہے، ضرورت ہے کہ اسے سٹیزن جرنلزم کا صحت مند ذریعہ ابلاغ بنایا جائے۔ اس کی درست سمت کے تعین کے لیے قانون سازی اور علمی نوعیت کے اقدام کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ صحافی تنظیموں سے مکالمہ کرے ۔اور میڈیا مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ٹاک شوز کی بہتری کے لیے قوانین میں تبدیلی لائیں اورنامعقول لوگوں کی اوٹ پٹانگ سے ناظرین کو ذہنی اضطراب میں مبتلا کرنے کی بجائے معیاری ،علمی اور متوازن مکالمے کا انتظام کریں۔