ادا نہ ہوا قرض وجود ختم

ادا نہ ہوا قرض اور وجود ختم ہوگیا

ہماری معیشت بھی بڑی عجیب ہے۔ یعنی علمی تعریف کی حد تک تو یہ ایک معیشت ہے لیکن عملًا مالی انتظام و انصرام کا یہاں کوئی عمل دخل دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ایک ایسے وقت پر بڑھتے ہوئے ملکی قرضوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے جبکہ ملک کے ذمہ واجب الادا قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر 2021تک ہمارے اندرونی و بیرونی ذرائع سے حاصل کردہ قرضوں کا حجم127ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر سے دیکھا جائے تو1947سے2008تک کے عرصے میں ہمارے ذمے مجموعی واجب الادا قرضہ6ہزار ارب روپے تھا جو کہ2021تک صرف13 سالوں میں بڑھ کے50ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا۔ بینک دولتِ پاکستان کے ایک تخمینے کے مطابق 2008سے2021تک کے عرصے میں پی پی پی کی حکومت نے مجموعی ملکی قرضے کے حجم میں16ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔ 2018تک پی ایم ایل (ن)کی حکومت کے اختتام پر ہمارے مجموعی قرضے میں 34ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ اگلے تین سالوں میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے 32ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ مجموعی ملکی قرضہ127ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔
ہمارے ہاں ملکی پیداوری عمل پر گویا تالے پڑے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کا کہیں نام و نشان نہیں۔ جبکہ ہم ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی اشیائے صرف سمیت غذائی اجناس باہر سے درآمد کرتے ہیں۔ قرض کے عوض احتیاج کا پورا کیا جانا بھی کچھ معنی رکھتا ہے۔ لیکن ہماری کیفیت تو ایسے خراب حالوں کی سی ہے جو پچھلے قرضے بمع سود اتارنے کی غرض سے نئے قرضے قدرے زائد شرح سود پر لیتے ہیں اور پھر اپنے جاری اخراجات چکانے کے لیے مزید قرضہ لیتے ہیں۔ مالی بدانتظامی کی شکار ہماری معیشت کی حالت زار کا نقشہ ذرا چھوٹے پیمانے پر ایک گھر کے مشابہہ ہے جس کے منتظمین کے اپنے ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ وہ اپنے اور اپنے اہل گھرانہ کے پیش آمدہ اخراجات پورے کرنے کے لیے قرضوں پر قرضے لیے چلے جا رہے ہوں۔ صرف یہی نہیں بلکہ قرض لیتے ہوئے قرض کی خامیاں بھی گنواتے چلے جا رہے ہوں۔ ہم بیک وقت خوف، سراسیمگی اور امید و بیم کی ملی جلی کیفیات کا شکار ہیں۔ جب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بڑھتے قرضے ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہیں تو ہم مارے دہشت کے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ اسی دہشت کے عالم میں ہماری امید بھی بندھائی جاتی ہے۔ خاص کر جب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ملکی جی ڈی پی میں اضافے کے تناسب سے ہمارے ہاں شرح غربت میں کمی آئی ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہمارے جیسے فاقہ مستوں کو تعمیر و ترقی کی گھڑیاں میسر ہوں گی۔
اب کے ہم قرضے کی دلدل میں کچھ زیادہ ہی اترتے چلے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں ملک کو قرضے کی دلدل سے نکالنے والے تو کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ ہاں البتہ ہمیں دلدل میں کچھ زائد دھنسنے یا دھنسائے جانے کا جواز فراہم کرنے والے معاشی جادوگروں کی ہر طرف بہتات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملکی شرح پیداوار میں اضافے کے تناسب سے ہمارے ہاں بیرونی قرضے کی شرح افزائش میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جاتا ہے کہ شرح پیداوار میں اضافے کی مناسبت سے ہمارے ہاں غربت کے رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے۔ گویا ایک جانب غربت کے خاتمے کے لیے پیداواری افزائش کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دوسری جانب کورونا کی وبائی یلغار کے پیش نظر پیداواری عمل میں سست روی کو ملک میں برآمدات کے مقابلے میں بڑھتی درآمدات اور اسکے نتیجے میں موجودہ مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں جب غربت کے خاتمے کے لیے کارکردگی کا سوال اٹھے تو پیداوار میں اضافے کا قصیدہ پڑھا جاتا ہے اور جب مہنگائی کے تذکرے سے کارکردگی پر سوالیا نشان اٹھے تو وبا کی آڑ میں سکڑتے پیداواری عمل کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ خدا جانے یہ کیسا پیداواری عمل ہے جو بیک وقت پھیلتا بھی ہے اور سکڑتا بھی ہے۔
ہم اپنی روز افزوں معاشی مشکلات کے باوجود عالمی مالی اداروں کے کاسہ لیس ہیں۔ عالمی مالی اداروں کی معاونت بالعموم شرح سود میں اضافے اور مقامی کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میں کم تر قدر متعین کرنے جیسے اقدامات سے مشروط ہوتی ہے۔ انہی اقدامات کا براہ راست نتیجہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک جانب ملکی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دوسری جانب عوام کے معیار زندگی میں دن بدن کمی واقع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہماری قومی سلامتی کی ضمانت ہماری خود کفالت اور خودانحصاری میں مضمر ہے۔ ہم کہیں قرضوں کے شیطانی چکر سے نکلیں تو ترقی کے راستے پر بھی چل پائیں۔ بقول شاعر
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا