بچوں کے کھانے کا تعلق دماغ

پیٹو بچوں کے اندھا دھند کھانے کا تعلق دماغ سے ہوسکتا ہے

پاکستان اور دنیا میں بعض بچے ہمہ وقت اندھا دھند کھاتے رہتے ہیں اور اب معلوم ہوا کہ نارمل بچوں کے مقابلے میں ان کے دماغ کے خاص گوشے یعنی گرے ایریا میں نمایاں فرق ہوسکتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس ضمن میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے کیک اسکول سے وابستہ ماہر اسٹوارٹ مرے نے کہا کہ بعض بچے خود پرقابو نہیں رکھ پاتے اور کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ ان کے دماغی اسکین سے ظاہر ہوا کہ اس سے دماغ میں نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جسے ایب نارمل تبدیلی بھی کہا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں والدین اور ڈاکٹروں کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔جرنل آف سائیکائٹری ریسرچ میں شائع رپورٹ کے مطابق نو یا دس برس کے پیٹو بچوں کے دماغ کا وہ گوشہ متاثر ہوتا ہے جس کا تعلق، فوائد بٹورنے اور اشتہا سے ہوتا ہے غذائی اشتہا یعنی طلب کو روکنے سے ہوسکتا ہے۔ اس کے متاثر ہونے سے معمولات بگڑتے ہیں اور بسیارخوری کی ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے نفسیات داں ایٹنگ ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ایسے بچے بار بار ہسپتال جاتے ہیں، تنا میں رہتے ہیں، موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں اورالگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں۔

انہی کیفیات کی بنا پر ماہرین نے ایسے بچوں پر تحقیق کی ہے جن کی تعداد 2 سے 4 فیصد تک ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق میں پورے امریکا کے 21 مقامات سے کل 11875 بچے شامل کئے گئے تھے۔ ایٹنگ ڈس آرڈر کے شکار بچوں کے دماغ میں سب سے اہم تبدیلی گرے ایریا میں دیکھی گئی۔لیکن گرے ایریا میں تبدیلی سے دیگر کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ سائنسدانوں کے مطابق وہ پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ ان دماغی تبدیلیوں سے کئی نفسیاتی عوارض پیدا ہوسکتی ہیں۔ تاہم پروفیسر اسٹوارٹ نے اس پر مزید تحقیق کا عندیہ دیا ہے۔