پاک امریکہ تعلقات

پاک امریکہ تعلقات میں بہتری وقت کا تقاضا

پاکستان کو دشمنوں کی نہیں بلکہ دوستوں کی ضرورت ہے، ہم کسی بھی ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات بگاڑنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ سپرپاور ہے اور ملک کی پہلے سے کمزور معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پاکستان کے مفاد نہیں ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ کے ساتھ محاذآرائی کا راستہ اختیار کرے، دراصل پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، اس لئے ہمیںاپنی معاشی ترقی کے لئے بیرونی امداد اور تجارت دونوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی دہائیوں پر مبنی تاریخ ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات میں بہت سے اتار چڑھائو بھی آتے رہے ہیں، اس وقت ایک بار پھر پاک امریکہ تعلقات ملک کے کونے کونے میں زیربحث ہیں اور یہ سب کچھ اُس وقت شروع ہوا ہے جب سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو سازش کا ساتھ جوڑا جس کے بارے میں اُن کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کی طرف سے رچائی گئی ہے تاہم نئے وزیراعظم شہبازشریف نے ایسی کسی سازش کے امکان کو مسترد کیا ہے جو عمران خان کو نکالنے کے لئے رچائی گئی ہو، قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں شہبازشریف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر ایسی کوئی سازش ثابت سچ ثابت ہوئی تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے، ادھر وائٹ ہاؤس نے بھی واضح الفاظ میں ایسی سازش کومسترد کیا اور پاکستان میں جمہوریت کی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی طویل تاریخ ہے، سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی رہا اور یہ پاکستان یہی ہے جس نے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا، سوویت یونین نے جب افغانستان پر جارحیت کی تو پاکستان اور امریکہ نے ملکر اسے شکست دی تھی، نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا، پاکستان نے اس جنگ کے دوران اربوں روپے کا معاشی نقصان برداشت کیا اور اسے بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا، اس دوران امریکہ نے پاکستان کی معاشی لحاظ سے مدد کی اور ہماری معیشت میں اربوں ڈالر شامل کئے، ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے صرف پرویزمشرف کے دورمیں پاکستان کو تقریباً 19 ارب ڈالر کی امداد دی، اس کے علاوہ سال 2010سے 2015ء تک کیری لوگربل کے تحت پاکستان کو سات ارب ڈالر دیئے گئے، امریکہ نے کورناوائرس کی وبا کے مشکل وقت میں پاکستان کے عوام کے لئے کورونا ویکسین کی مفت خوراکیں بھجوائیں،امریکہ کے ساتھ ان مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ امریکہ پر بے بنیاد الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔
امریکہ اور روس کے ساتھ تعلقات میں توازن برقراررکھنا بھی ضروری ہے،روس یوکرین تنازعے میں کسی بھی ایک فریق کی طرفداری ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک حقیقت ہے کہ یوکرین نہ تو معاشی اور نہ ہی عسکری لحاظ سے روس کا مقابلہ کرسکتا ہے جب کہ یہ پاکستان کی اس پالیسی کے بھی خلاف ہے کہ کسی غیرملکی جارحیت کی حمایت کی جائے، عمران خان نے غیرذمہ دارانہ بنانات کے ذریعے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے،اس لئے نئی حکومت اور فوجی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں،چونکہ امریکہ مضبوط معیشت کی حامل سپرپاور ہے اس کے ساتھ ہمارے تعلقات جلد اور مکمل طور پر بحال ہونے چاہئیں، آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتا،ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتا ،ہم بیک وقت امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں،انہوںنے یہ بھی کہاکہ پاکستان چین کا قریبی سٹرٹیجک شراکت دار ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہدای اس کی واضح مثال ہے، اسی طرح انہوںنے یہ بھی کہاکہ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ طویل سٹرٹیجک تاریخ ہے جو ہماری مصنوعات کے لئے ایک بڑی منڈی بھی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دونوں ممالک میں سے کسی کوبھی کھوئے بغیر ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دیناچاہتا ہے،آرمی چیف نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت نہیں کرتا اور اس تنازعے کو پرامن طور پر حل ہونا چاہیے، حکمرانوںکوبھی چاہیے کہ ایسی خارجہ پالیسی اختیارکریں جو ملک کے مفاد میں ہو،آئی ایم ایف پروگرام کے لئے بھی امریکہ کے ساتھ اچھے مراسم ضروری ہیں، ،چنانچہ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو فوری طور پر بہتر ی آئے اس لئے نئی منتخب حکومت اسے اپنی ترجیح بنائے، مختصر یہ کہ ہماری معیشت دوستوں کی ضرورت ہے ،دشمنوں کی نہیں۔
(بشکریہ،بلوچستان ٹائمز ، ترجمہ:راشد عباسی )

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات