پٹرولیم مصنوعات, خیبر پختونخوا میں کاغذ کے بحران اور قیمتوں میں 80فیصد اضافے سے اخبارات کی اشاعت اور پرنٹنگ کی مشکلات بڑھ گئی ہیں

کاغذ کا بحران حکومتی توجہ کا متقاضی

خیبر پختونخوا میں کاغذ کے بحران اور قیمتوں میں 80فیصد اضافے سے اخبارات کی اشاعت اور پرنٹنگ کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ روس، یوکرین جنگ کاغذ بحران کی اہم وجہ قرار دی جا رہی ہے۔ اس وقت مارکیٹ کی صورتحال یہ ہے کہ مہنگے داموں کاغذ دستیاب نہیں ہے، 70گرام اے فور 600روپے سے 850روپے ، 80گرام 650روپے سے 900روپے تک پہنچ گیا ہے، کاغذ بحران کے باعث پاکستان میں اخباری صنعت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اخبارات اور پرنٹنگ سے وابستہ افراد علم و آگہی پھیلانے میں مصروف عمل ہیں جو انڈسٹری کا درجہ رکھتے ہیں جس سے بلاشبہ لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح وہ دیگر انڈسٹریز کو بچانے کے لیے مراعاتی پیکیج کا اعلان کرتی ہے اسی طرح اخباری صنعت اور پرنٹنگ کے لیے بھی مراعاتی پیکیج کا اعلان کرے تاکہ صنعت کے چلنے سے لاکھوں افراد کا روزگار لگا رہے۔ کاغذ بحران کی وجوہات جاننے کی سنجیدہ سعی کی جائے اور اس کا کارگر حل پیش کیا جائے۔ کاغذ کی درآمد کو آسان بنانے کے لیے حکومت تمام وسائل بروئے کار لائے۔ اگر مافیا کی ملی بھگت سے کاغذ بحران پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو اسے کیفر کردار تک پہنچانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اخباری صنعت نہایت مشکلات کے باوجود علم و آگہی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اگر کاغذ بحران کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ سلسلہ متاثر ہو گا۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اخباری صنعت کو بحران سے بچانے کے لیے قابل عمل ٹھوس اقدامات اٹھائے کیونکہ یہ صرف ایک صنعت ہی نہیں بلکہ لاکھوں افراد کے روزگار کا بھی مسئلہ ہے جسے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
بلوچستان کی محرومیوں دورکرنے کا عزم
وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے حالیہ دورہ بلوچستان کے دوران صوبے کو ٹیکنکل یونیورسٹی جبکہ ہونہار طلبہ وطالبات کو لیپ ٹاپ دینے اور صوبے کو ترقی میں ملک کے دوسرے حصوں کے برابر لانے کا اعلان کیا ہے، انہوںنے خضدار،کچلاک قومی شاہراہ(این 25) کے سیکشن ون اور ٹو کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترقیاتی منصوبوں میں سست روی برداشت نہیں کی جائے گی۔ بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے وزیراعظم کا عزم مستحسن ہے، قبل ازیں بلوچستان کے حقوق کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں،امید ہے اب بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا جائے گا اور ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے عوام کے اندر شدید احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ وہاںکی آبادی کی بڑی تعداد ابھی تک بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔ اگرچہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کے عوام کو پینے کے صاف پانی، تعلیم اور علاج جیسی ناگزیر سہولیتیں میسر نہیں ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی طرف سے وعدوں پر عمل نہ ہونے سے بلوچستان کے عوام کے اندر احساس محرومی بڑھتا چلا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب ارباب اختیار بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے تاکہ ان کا احساس محرومی دور ہو سکے لیکن بدقسمتی سے اس حوالے سے کبھی بھی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔
اب جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کی ترقی کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے ۔تو امید کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم صوبے کا احساس محرومی دور کرنے کے لئے اپنے اعلانات اور وعدوں کو عملی جامہ بھی پہنائیں گے، اگر موجودہ وزیراعظم بھی اپنے پیشروؤں کی طرح محض اعلانات اور وعدوں تک محدود رہے تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہوگی، بلوچستان کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کا ایک ہی فارمولہ ہے کہ ان کا احساس محرومی دور کیا جائے۔
ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کی ضرورت
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے متعلقہ محکموں اور اداروں کو ہدایت کی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل یقینی بنائی جائے، انہوںنے واضح کیا کہ ترقیاتی منصوبوں پر غیرضروری تاخیر قابل قبول نہیں ، اس صورت میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل یقینی بنانا احسن اقدام ہے، کیونکہ ہمارے ہاں ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل نہ ہونے یا منصوبے شروع کرکے تکمیل سے پہلے ختم کر دینے کا رحجان پایا جاتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی منصوبے پر کام شروع ہونے کے کچھ عرصے بعد التوا کا شکار ہو جاتا ہے جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی سڑک پر پل یا فلائی اوور کے منصوبے پر کام شروع ہوا جو بعد میں انتظامیہ کی غفلت، عدم دلچسپی یا فنڈذ کی عدم دستیابی پر روک دیا گیا تو اس صورت میں مذکورہ منصوبہ شہریوں کے لئے سہولت کے بجائے وبال کا باعث بن جاتا ہے۔ منصوبوں کی بروقت تکمیل نہ ہونے یا التوا کا شکار ہونے کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے جس سے قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے۔
قوم کا پیسہ حکمرانوں کے پاس امانت ہوتا ہے جسے صحیح مصرف پر لگانا ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ وزیراعلیٰ محمود خان اگر اس ذمہ داری کا احساس کر رہے ہیں تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے کیونکہ جب ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل ہوں گے تو عوام حقیقی معنوں میں اسی صورت مستفید ہو سکیں گے اور قوم کا پیسہ بھی ضائع ہونے سے بچایا جا سکے گا۔ اگر منصوبوں کو مقررہ مدت میں مکمل نہ کرنے یا التوا کی روش جاری رہی تو یقیناً اس سے قوم کا پیسہ ضائع ہو گا اور عوام بھی فوائد سے محروم رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟