پٹرولیم مصنوعات, خیبر پختونخوا میں کاغذ کے بحران اور قیمتوں میں 80فیصد اضافے سے اخبارات کی اشاعت اور پرنٹنگ کی مشکلات بڑھ گئی ہیں

ہرکہ آمد عمارت نو ساخت

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دورہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں، حکومت مذکرات میں کامیابی کی دعویدار ہے، وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی سے خزانے پر بھاری بوجھ پڑ رہا ہے، یہ آئی ایم ایف کی شرائط کے بھی خلاف ہے، سو اسے فوری ختم کرنا ہو گا، وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اگر پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کو ختم نہ کیا گیا تو معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ شنید ہے کہ حکومت ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 51.52روپے جب کہ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 21.30روپے اضافے کا منصوبہ بنا چکی ہے ، اسی طرح بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بھی 5روپے کا اضافہ متوقع ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران بزنس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس پر وزیر خزانہ نے اتفاق کیا ہے۔ نو منتخب وزیر خزانہ کے اقدامات سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مخلوط حکومت نے آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حصول اور قبل ازیں روکے جانے والی رقم کے اجراء کیلئے تیاری کر لی ہے، آئی ایم ایف کڑی شرائط رکھے گا جس کے نتیجے میں مہنگائی کا نیا طوفان آنے کے خدشات ہیں۔
نو منتخب حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت سے معیشت نہیں سنبھل رہی ہے اور مہنگائی کو جواز بنا کر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو کامیاب بھی ہوئی، اب اصول طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے دعوے کے مطابق نو منتخب حکومت عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرتی اور معیشت کو درست سمت گامزن کرتی، مگر بڑی مہارت سے سارا ملبہ تحریک انصاف کی سابق حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح میں پہلے کی نسبت کئی گنا اضافہ ہو جائے گا، وزیر اعظم شہباز شریف ایک طرف کہتے ہیں کہ حکومت میں آنے کا واحد مقصد مہنگائی ختم کرنا ہے جب کہ دوسری طرف مہنگائی میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ عجب معاملہ ہے کہ حکومت تبدیل ہونے کے ساتھ ہی ریاستی پالیسیاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ الگ الگ طرز حکمرانی سے عوام تختہ مشق بنتے ہیں، یہاں حکومتیں بدلتی ہیں مگرعوام کے حالات تبدیل نہیں ہوتے، شاید ایسے ہی معاشروں کیلئے کہا گیا ہے کہ
ہر کہ آمد عمارت نو ساخت
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آنے والا اپنے انداز کے مطابق ایک نئی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات میں دیکھا جائے تو 75سالہ تاریخ میں ملک تجربہ گاہ بنا رہا ہے، ہر حکمران نے اپنے انداز سے ملک کو چلانے کی کوشش کی ہے۔ عام شہری کے ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب سابق وزیر اعظم عمران خان پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دے رہے تھے تو موجودہ حکومت سبسڈی کیوں نہیں دے سکتی ہے؟ حکمرانوں کی طرف سے اس کا مداوہ نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ طرز حکمرانی ہی ہے جس کا عوام کو بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے۔ ہمیں ایسے طویل المدتی منصوبے بنانے کی ضرورت ہے کہ حکومت کے تبدیل ہونے سے جن پر کوئی فرق نہ پڑے۔
ترقی یافتہ ممالک میں طرز حکمرانی ملک و قوم کے مفاد کو سامنے رکھ کر تشکیل دی جاتی ہے۔ وہاں پر حکمرانوں کے تبدیل ہونے سے ترقیاتی منصوبے طے شدہ پلان کے مطابق آگے بڑھتے رہتے ہیں ، ہمیں بھی اپنے ہاں اسے رواج دینے کی ضرورت ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان پٹرولیم مصنوعات پر اس لیے سبسڈی دے رہے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اکتوبر سے دسمبر 2022ء تک ہائوسنگ کے کئی پراجیکٹ تکمیل کو پہنچنے والے ہیں ، حکومت اور پرائیویٹ کمپنیوںکے اشتراک سے شروع ہونے والے منصوبوں میں حکومت کو رواں سال کے آخر میں اربوں روپے حاصل ہونے تھے، سابق وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کا ادراک کرتے ہوئے پٹرول مصنوعات میں سبسڈی دے دی کہ عوام 150روپے فی لیٹر پٹرول کے متحمل نہیں ہو سکتے، جب ہائوسنگ سے اربوں روپے حاصل ہوںگے تو اس سے پٹرولیم مصنوعات کے خسارے کو پورا کر دیا جائے گا، دیکھا جائے تو یہ طرز حکمرانی تھا جس کا سابق حکومت کے پاس حل تھا مگر موجودہ حکومت کے پاس اس کا حل نہیں ہے، موجودہ حکومت عوام پر بوجھ ڈال کر اس خسارے کو پورا کرنا چاہتی ہے تو اسے دیگر ذرائع اور مدات سے خسارے کو پورا کرنا چاہیے تاکہ عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے تو یکم مئی سے ڈیزل کی قیمت میں51روپے اور پٹرول کی قیمت میں 21روپے کا یکمشت اضافہ کرنے کی بجائے اسے مختلف مراحل میں کیا جائے، یوں عوام پر اچانک بوجھ نہیں پڑے گا۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ حکومت کو کام کرنے کا موقع مل جائے گا ، اگر روس اور یوکرین کی جنگ ختم ہو جاتی ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔ نو منتخب حکومت مہنگائی کے خاتمے کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئی ہے، اس کے پاس وقت بہت کم ہے سو اسے عوا م دوست معاشی پالیسی تشکیل دینی ہو گی جس سے حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف مل سکے۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام