آخری عشرے میں قیام اللیل کی برکات

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کی رات کو قیام کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے (مسلم)

رمضان المبارک میں قیام اللیل کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح و تہلیل اور قرات قرآن میں مشغول رہتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو فرضیت کے بغیر قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : جس شخص نے ایمان اور احتساب (محاسبہ نفس کرنے) کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘(ترمذی)
رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ رمضان میں نمازِ تراویح بھی قیام اللیل کی ایک اہم کڑی ہے جسے قیام رمضان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نمازِ تراویح کے سبب جتنا قیام اس مہینے میں کیا جاتا ہے وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اس سے منشاء ایزدی یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک کی راتوں کو زیادہ سے زیادہ اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے۔ اس لئے کہ رمضان کی با برکت راتیں شب بیداری کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ روایات میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی راتوں کو آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرما کر اپنے بندوں کو تین مرتبہ ندا دیتا ہے۔ ’’کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘ (شعب الایمان)
رحمت پروردگار رمضان المبارک کی راتوں میں سب کو اپنے دامنِ عفو و کرم میں آنے کی دعوت دیتی ہے۔ شومی قسمت کہ انسان رحمت طلبی اور مغفرت جوئی کی بجائے رات کی ان گراں بہا ساعتوں کو خواب غفلت کی نذر کردیتا ہے جبکہ رب کی رحمت اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پکارتی ہے۔ مگر بد نصیب انسان غفلت کی نیند تانے یہ ساعتیں گزار دیتا ہے۔ اور رحمتِ ایزدی سے اپنا حصہ وصول نہیں کرتا۔
رمضان کی آخری راتوں میں قیام اللیل کی فضیلت
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے ماہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی رات کو بھی نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ (رمضان ختم ہونے میں) سات راتیں باقی رہ گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تہائی رات تک نماز پڑھائی، پھر جب چھ راتیں باقی رہ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں پڑھائی، پھر جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آدھی رات تک نماز پڑھائی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کاش آج آپ مزید پڑھاتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھے، یہاں تک کہ امام فارغ ہو جائے، تو اس کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔‘‘ اور جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہیں پڑھائی، اور جب تین راتیں باقی رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام اہل خانہ اور لوگوں کو جمع کیا اور نماز پڑھائی، یہاں تک کہ ہم کو خوف ہوا کہ ’’فلاح‘‘ نکل جائے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ ’’فلاح‘‘ کیا چیز ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’فلاح‘‘ سے مراد سحری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کے بقیہ ایام میں نماز نہیں پڑھائی۔ (سنن ابوداؤد)

مزید پڑھیں:  اسرائیلی کارروائی پر فیصلہ کن جواب دیں گے ،ایران