ہیٹ ویوز ،بھارت میں معمول بن گئیں

رواں سال مارچ کے دوران شمالی بھارت کے کئی علاقوں میں درجن بھر سے زائد اور جنوبی بھارت میں گرمی کی کئی شدید لہریں آ چکی ہیں۔ بھارتی محکمہ موسمیات کے مطابق یہ غیر معمولی گرم موسم اپریل میں بھی جاری رہے گا۔ یہ ہیٹ ویوز جو ماضی میں بھارت میں کم ہی آتی تھیں اب ہر سال کا معمول بن چکی ہیں۔2022 میں یہ ہیٹ ویوز معمول سے پہلے آ نا شروع ہو گئی ہیں۔ ملکی محکمہ موسمیات نے 11 مارچ کو بھارت میں گرمی کی پہلی شدید لہر کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد سے ملک میں ایسی کئی ہیٹ ویوز آچکی ہیں۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے گرمی کی لہر کو اس وقت شدید قرار دیا جاتا ہے جب درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے یا عام اوسط سے تقریباََ5 ڈگری تجاوز کر جائے۔ گرمی کی حالیہ شدید لہروں سے بھارت کی شمال مغربی ریاست گجرات سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اس ریاست کے کچھ حصوں نے مارچ کے مہینے میں 11 دنوں تک شدید گرمی کا سامنا کیا۔ ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور جموں و کشمیر جو کہ عموما بھارت کے ٹھنڈے علاقے سمجھے جاتے ہیںبھی گرمی کی شدید لہر کے زیر اثر رہے۔ ایک سینیئر موسمیاتی سائنس دان کے مطابق ماضی میںہیٹ ویو کے اس طرح کے واقعات دیکھنے میں آتے رہے ہیں، لیکن اب لگتا ہے کہ یہ زیادہ شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوںنے کہا، ”کسی علاقے میں کچھ دنوں کے لیے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر یہ معمول پر آ جاتا ہے۔ لیکن ہم نے حالیہ برسوں میں جو کچھ دیکھا ہے وہ یہ کہ گرمی کی لہروں کی تعداد اور شدت دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بین الحکومتی ماحولیاتی تبدیلی کے پینل کی جانب سے جاری کردہ 2021 اور 2022 کی رپورٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں گرمی کی لہروں اور نمی کے باعث گرمی کا دبا ئوشدت اختیار کر سکتا ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق، گرمی کی شدید لہریں انتہائی یا غیر معمولی بارشوں کا سبب بن سکتی ہیں اور آنے والی دہائیوں میں دیگر موسمیاتی آفات بھارت کا رخ کر سکتی ہیں۔ رپورٹ میں خشک سالی میں اضافہ کے خدشے سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔بھارت ایک زرعی ملک ہے اور یہ وسطی اور شمال مغربی بھارت میں رہنے والے کسانوں کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ شدید گرمی زرعی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔موسمیاتی سائنسدان کے مطابق ”گرین ہائوس گیسوں، جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو اگر ہم نمایاں طور پر کم کر دیں تو شاید ہم آنے والی دہائیوں میں اس کے مثبت اثرات دیکھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  چیئرمین پبلک اکاؤ نٹس کمیٹی کے معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار