وچلی گل اے محمد بخشا ‘ وچوں گئی اے مُک

وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کو غیرشرعی قرار دے کر ریشم کے گچھے کو جو الجھ چکا ہے ‘ سنوارنے اور تاروں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش ضرور کی ہے جس کے حوالے سے ایوب خاور نے کہا ہے کہ
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
غالباً اس سے پہلے بھی یعنی دس بارہ برس ہونے کو آرہے ہیں جب اسی طرح سود کو ملک میں غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگانے کا حکم دیا گیا تھا مگر اس دور کی حکومت نے اسے اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرکے ملک میں بنکاری نظام کو ” اسلامیانے” کے لئے نیم دلانہ کوششیں شروع کر دی تھیں اور بنکوں میں مضاربہ نظام لاگو کرنے کی کوششیں کی تھی ‘ حالانکہ ایسے تمام اقدامات عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہی دکھائی دے رہے تھے ‘ کیونکہ جن بنکوں نے عام سودی کھاتوں کے ساتھ اسلامی بینکاری کا نظام چلایا اس میں ایک باریک سا نکتہ یوں پوشیدہ تھا کہ بظاہر تو کھاتہ داروں کو یہ یقین دلایا جاتا کہ ان کی رقوم کو اسلامی اصولوں کے مطابق کاروبار میں لگا کر سال کے آخر میں ”حلال” کمائی سے ان کو ” جائز” منافع دیا جارہا ہے مگر بنک اپنے منافع یعنی عام سودی اور اسلامی بنکاری نظام کے مجموعی طور پر حساب کتاب کرکے حصے بخرے کرتا ہے ‘ دوسرا ایک اور باریک نکتہ یہ ہے کہ یہ جواسی حوالے سے اسلامی بنکاری کے تحت کار فائنانسگ کا سلسلہ چلتا ہے ‘ اگر تو اس کے لئے قرض لینے والوں کو ہر سال ”حلال” منافع کے تحت ماہانہ قسطوں میں نمایاں کمی ہونی چاہئے اس لئے کہ سال بھر ایک خاص رقم ہر ماہ ادا کرنے کے بعد بنک کا اصل زر کم ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے ‘ اور گزشتہ سال کے مقابلے میں آنے والے سال کے لئے ماہانہ قسط کم ہونی چاہئے تاہم اس اصول پر عمل نہیں کیا جاتا اور عام سودی کھاتوں کے تحت سٹیٹ بنک کے شرح سود کے مطابق نئے سال کے لئے ماہانہ قسطوں کا تعین کیا جاتا ہے ‘ گویا یہ دونوں نظام ہمارے ہی ایک شعرکی مانند پہلو بہ پہلو چلتے ہیں
المیہ یہی ہے دریا کا
دو کناروں میں بھی سفر تنہا
اب اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو سامنے لاتے ہیں ‘ جب ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس دور میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اس زمانے کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے ملک میں ”اسلامی نظام” کے قیام کے نام پر احتجاجی تحریک شروع کی تھی ‘ اسی سے ضیاء الحق نے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے اپنے آپ کو صدر(امیر المومنین) منتخب کروایا تھا ‘ اس کے بعد عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اس نے بنکوں کے کرنٹ اکائونٹس کو تونہیں چھیڑا ‘ البتہ بچت کھاتوں یعنی سیونگ اکائونٹس کو ”اسلامی نظام” میں ڈھالنے کے لئے ان کو سیونگ اکائونٹس نام میںبدل دیا ‘ ساتھ ہی ہر سال رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو ان میں پڑی ہوئی رقوم پر ڈھائی فیصد زکواة لاگو کرتے ہوئے زبردستی کٹوتی شروع کر دی ‘ یوں ہر سال اربوں کھربوں روپے اکٹھے کرکے ان کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ‘ ساتھ ہی اپنی بنائی ہوئی مجلس شوریٰ (جس کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر کیا گیا) کے ارکان کو سیاسی رشوت کے طور پر ترقیاتی فنڈز کا اجراء شروع کر دیا ‘ جو آج تک نہ صرف چلا آرہا ہے بلکہ اسے سیاسی بلیک میلنگ کے لئے بھی استعمال عام سی بات ہے ‘اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی حکومت کے دوران یہ ترقیاتی فنڈز بند کر دیئے تھے لیکن اراکین پارلیمنٹ کے شدید دبائو پر دوبارہ شروع کر دیئے گئے ‘ اب ان میں تھوڑی سی تبدیلی یہ آگئی ہے کہ جو بھی برسراقتدار حکومت ہو وہ صرف منظور نظر افراد کو ہی نوازتی ہے اور مخالف ارکان پارلیمنٹ کو محروم رکھنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے یعنی فنڈز کی فراہمی مقتدر حلقوں کی خوشنودی سے مشروط ہے ‘ بقول مقبول عامر مرحوم
پھر وہی ہم ہیں وہی تیشۂ رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو پرویز کے کام آئی ہے
سودی کھاتوں یعنی سیونگ بنک اکائونٹس سے ڈھائی فیصد”زکواة” کی کٹوتی کس حد تک اسلامی اصولوں یعنی نظام زکواة کے مطابق جائز ہے؟ اس پر بارہا ہم نے علمائے کرام کی توجہ دلا کر یہ سوال اٹھایا ہے کہ سودی بنکاری نظام سے زکواة کی کٹوتی کس اسلامی اصول کے تحت درست اقدام ہے جبکہ آگے چل کر اس رقم کوجس طرح مستحقین میں تقسیم کیا جاتا ہے اس کے اندر بھی بے قاعدگیوں بلکہ بعض صورتوں میں بد دیانتیوں کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے ‘ اس زبردستی کی زکواة کٹوتی پر سب سے پہلے اہل تشیع کی جانب سے اعتراضات اٹھا کر کہا گیا کہ ان کا زکواة کا اپنا طریقہ کار ہے اور بنک کھاتوں سے کٹوتی ان کے مسلک کے مطابق نہیں ہے اس لئے ان کے بنک کھاتوں سے کٹوتی بند کی جائے اور حکومت کو مجبور ہونا پڑا کہ انہیں اپنی صوابدید کے مطابق خود ہی زکواة ذاتی طور پر ادا کرنے کی اجازت دی گئی ‘ بعد میں دوسرے مسالک کی جانب سے بھی اسی نوع کے اعتراضات کے بعد انہیں بھی ڈکلیئر کرنے کی اجازت دے کر اس سہولت سے استفادہ کرنے کا موقع ملا البتہ شاید فکس سیونگ اکائونٹس سے کٹوتی ا ب بھی کی جاتی ہے ‘ جبکہ ان کٹوتیوں سے حاصل کردہ رقوم اب بھی اربوں کھربوں تک پہنچ جاتی ہیں جن کو (ہر حکومت وقت) سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے باز نہیں آتی۔بقول جون ایلیائ
گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
اب ایک بار پھر اسلامی نظریاتی کونسل نے سودی نظام کو غیر شرعی قرار تو دے دیا ہے مگر وہ جو پشتو ضرب المثل ہے کہ جس بلا سے ملاقات میں رات کا سفر پڑا ہو ‘ اس سے کیا گھبرانا ‘ یعنی عدالت نے 31دسمبر 2027 تک تمام قوانین کو اسلامی اور سود سے پاک اصولوں میں ڈھالنے کا حکم تقریباً ایسے ہی ہے ‘اتنی مدت تک کی مہلت کو تو کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ‘ اور پانچ سال کے دوران کون برسر اقتدار آتا ہے جبکہ یہ ذمہ داری آنے والی حکومتیں ایک دوسرے پرڈالتے ہوئے کنی کتراتی رہیں گی ‘ کہ بقول میاں محمد بخش
کوئی آکھے پیڑ لکے دی ‘ کوئی آکھے چُک
وچلی گل اے محمد بخشا ‘ وچوں گئی اے مُک

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد