1 103

بچوں کا تعلیمی سال اور کرنے کے کام

دیگر والدین کی طرح میں بھی بچوں کے کم عمری میں سکول جانے کیخلاف تھا لیکن ہمارے ہاں چونکہ اس کی ریت پڑ گئی ہے اور اس کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن بھی نہیں ہے، اگر آپ اپنے طور پر کوئی اقدام اُٹھاتے ہیں تو آپ کے بچے تعلیمی میدان میں دیگر بچوں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ اسی طرح میں بچوں کے بھاری بیگ اور نصاب سے بھی نالاں تھا کہ اس ایڈوانس نصاب کی وجہ سے بچوں کو سانس لینے کا موقع نہیں مل پاتا، سو اسی خیال کے پیش نظر ہر وقت احساس رہتا کہ فرصت کے ایسے لمحات میسر ہوں کہ جس میں بچے غیرنصابی سرگرمیاں کر سکیں، گاہے یہ خیال بھی دامن گیر ہوتا کہ والدین اس قدر بچوں کو وقت نہیں دے پارہے جس کے مستحق ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان کے کروڑوں بچے اس وقت کورونا وبا کے خوف سے گھروں میں محدود ہیں۔ ایسے حالات میں والدین کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ اگر بچوں کو پڑھایا نہ گیا تو وہ بہت تیزی سے اپنا سبق بھولتے جائیں گے۔ کچھ عرصہ قبل تک ہم مجموعی نظام تعلیم کے بارے بات کرتے تھے لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے اور ہمیں کلاس کے اعتبار سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اگرچہ سرکاری سطح پر ٹیلی سکول کے نام سے بچوں کے تعلیمی سال کا احساس کیا گیا ہے لیکن سچی بات ہے اس میں بھی ہر کلاس کیلئے بہت کم وقت مختص کیا گیا ہے جو بچوں کی تعلیمی ضرورت کو کسی طور بھی پورا نہیں کرتا، اس ضمن میں امریکہ اور یورپ کے ممتاز اساتذہ نے بعض طریقے بیان کئے ہیں جو ان والدین کیلئے بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم کے متعلق فکرمند رہتے ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان امور کا جائزہ لیتے ہیں۔ ماہرین تعلیم اس بارے سب سے پہلا کام کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ گھر کا ایک کمرہ عارضی سکول کیلئے مختص کیجئے۔ اگر ممکن ہو تو بچوں کو یونیفارم پہنا کر بٹھائیں تاکہ وہ نفسیاتی طور پر اسے سکول کے اوقات سمجھیں۔ یہ مشورہ ایک اُستاد برائن گیلون کا ہے جو کہتے ہیں کہ بچے عادتوں کی قید میں ہوتے ہیں، اس کا فائدہ اُٹھائیں۔ اس کے علاوہ ٹائم ٹیبل اور شیڈول کا اعلان بھی کیجئے۔ اس ضمن میں بچوں سے مشورہ بھی کیا جاسکتا ہے، تاکہ وہ اس میں دلچسپی لے سکیں۔آٹھویں جماعت کو معاشرتی علوم پڑھانے والی اُستانی میکاشیپی کہتی ہیں کہ گھر کے سکول کا دورانیہ اصل اسکول سے نصف ہونا چاہئے۔ اگر وہ سکول میں6گھنٹے پڑھتے ہیں تو آپ گھریلو سکول کے اوقات3گھنٹے کر دیجئے۔ بچوں سے لکھوائیں اور پلانر کے تحت انہیں کام دیں۔ چھٹی جماعت کو انگریزی پڑھانے والی کرسٹینا کہتی ہیں کہ ہر بچے کی روزانہ کی روداد ایک پلانر میں لکھیں جس سے بچوں کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ مزید کام پر راغب ہوں گے۔
پانچویں جماعت کے بچوں کی اُستانی کیٹلن ڈولفن کہتی ہیں کہ اگرچہ سکول میں کھیلنے یا نصف چھٹی کے اوقات ان کے اپنے لحاظ سے ہوتے ہیں لیکن گھر میں ہر سبق کے بعد انہیں فراغت کے کچھ لمحات دیجئے۔ اس کے بعد دوسرے مضمون کا سبق پڑھائیں۔ کیٹلن کا ایک اور مشورہ ہے کہ تمام والدین اُستاد نہیں ہوسکتے کیونکہ تعلیمی نفسیات سے واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ نہ ہی والدین چند دنوں میں اُستاد بن سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنے اردگرد یا آن لائن اُستاد سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی بہت سے اُستاد ایسے ہیں جو مدد کیلئے موجود ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ وبا کا یہ دور ہم سب کیلئے نفسیاتی مسائل کی وجہ بھی بنا ہوا ہے۔ اسی لئے بچوں کی دماغی صحت کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ خود کو قید میں محسوس کررہے ہیں۔ اس ضمن میں انہیں ہر ممکن حد تک مثبت رکھنے کی کوشش کیجئے۔ اگر وہ کچھ وقت آپ کیساتھ کھیلنا چاہتے ہیں تو انکار نہ کیجئے۔ گھر میں چہل قدمی کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کرنے دیجئے۔ یاد رہے کہ ہر طالب علم اپنے انداز سے سیکھتا ہے اور اس کی اکتسابی صلاحیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس لئے مسلسل غور کرتے رہیں کہ بچے کو کس طرح پڑھایا جائے۔ اگر کوئی طریقہ کام نہیں کررہا تو دوسری راہ اختیار کیجئے لیکن یاد رہے کہ بچوں کی ہوم سکولنگ بہت زیادہ مؤثر ہے، بس ضرورت ہے کہ اسے بچے کی ضرورت، اقدار اور طرزِ زندگی سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارم پر بہت سے مستند اساتذہ کے لیکچر موجود ہیں جو گھر میں پڑھنے اور پڑھانے کے متعلق ہیں۔ آپ ان سے بھی رہنمائی لے سکتے ہیں۔ ان ویب سائٹس میں نیوز ای ایل اے اور ریڈ ورکس کی ویب سائٹ نمایاں ہیں جبکہ سائنس پڑھانے کیلئے برین پاپ کی ویب سائٹ یاد رکھیں۔ ریاضی کیلئے ڈریم باکس اور زرن کی ویب سائٹ مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ اگر والدین خود بھی بچے کو پڑھائیں تو اس سے بچوں کا حوصلہ بڑھے گا اور آپ خود بھی کچھ نہ کچھ ضرور سیکھیں گے۔ تعلیمی نفسیات کے ایک ماہر کریگ کنیر کہتے ہیں کہ والد اور والدہ دونوں ہی بچوں کو پڑھائیں۔ جیسے ہی آپ بچوں کی تدریس میں شامل ہوں گے عین اسی لمحے سے اس کے بہترین نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ وقت ہے کہ آپ بچوں کے رجحان معلوم کر سکتے ہیں۔ کس مضمون میں وہ کتنی دلچسپی لیتے ہیں، یہ راز بھی آپ پر کھلتا جائے گا۔ گھریلو تدریس کے پورے عمل میں بچوں سے پوچھتے رہیں کہ وہ کیا کچھ سیکھ رہے ہیں اور کس شے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ والدین کے پاس بہترین وقت ہے کہ وہ بچوں کو اسلامی تاریخ، مقدس ہستیوں اور ہیروز بارے آگاہی فراہم کریں، کیونکہ یہ تعلیم کا اہم حصہ ہے، بچے چونکہ والدین کیساتھ بے تکلف ہوتے ہیں جبکہ تعلیم میں کسی قدر سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے اسلئے بہت سے والدین بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو پڑھانا بہت مشکل کام ہے لیکن یاد رکھیں اس وقت کو اگر ہم نے ٹھیک استعمال کرلیا تو یہ آزمائش ہمارے لئے رحمت میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے اور بچوں کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  بی آر ٹی بسوں میں خواتین کی ہراسگی