3 71

دیکھوگے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں

آج اپریل کے مہینے کی 21تاریخ ہے اور آج کے دن پاکستان سمیت ساری دنیا میں تخلیق یا اختراع کا عالمی دن منایا جاتا رہا ہے۔ تخلیق کہتے ہیں کسی چیز کو خلق کرنے کے عمل کو بھی یا خلق ہونے والی چیز کو بھی جبکہ اختراع کے معنی ہیں کسی خلق شدہ چیز میں جدت پیدا کرنے کو۔ ہر تخلیق کرنے والے کو تخلیق کار کہا جاتا ہے، اگر ہم کسی تخلیق کار کی تخلیق کو ایجاد کا نام دیدیں تو ہم تخلیق کار کو مؤجد بھی کہہ سکتے ہیں، ہم عہد حاضر کو ٹیکنالوجی کی تیزرفتار ترقی کا دور کہتے ہیں، ہمارے سائنسدانوں کے مؤجد طبقے نے ماضی میں جو جو ایجادات کیں ان کی جادوگری دیکھ کر شاعر مشرق کا وہ شعر گنبد ذہن میں گونجنے لگتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
ہمارے سائنسی تخلیق کاروں یا مؤجدوں کی ایجادات میں ہونے والی نت نئی اختراعات نے ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب کیا کہ میلوں کے فاصلے اور بند کمرے کی تنہائیاں انٹرنیٹ کی بدولت یکسر ختم ہوکر رہ گئیں اور پورے کا پورا کرۂ ارض گلوبل ویلیج کے سانچے میں ڈھل گیا، آج کل دنیا جہاں کے کسی ایک کونے میں رونما ہونے والا واقعہ اور کیسی بھی خبر آن واحد میں وائرل ہوکر ہر کس وناکس تک جاپہنچتی ہے، یہ سب مؤجد نامی تخلیق کاروں کی کاوشوں، کاہشوں، ریاضتوں اور ان کی جہدمسلسل کے نتیجہ میں ممکن ہوا،
اے جذبہ دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل ہوجائے
منزل کیلئے دوگام چلوں اور سامنے منزل ہوجائے
منزل پر پہنچنے کیلئے منزل کا تعین اور جذبہ دل کے علاوہ ذہن رسا کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور ذہن رسا قدرت کی طرف سے ودیعت کیا جانے والا وہ عظیم تحفہ یا عطیہ ہے جس کا کوئی بھی متبادل نہیں ہوسکتا، تخلیق یا اختراع کا زندگی کے جس شعبہ سے بھی تعلق ہو، اس کا مؤجد تخلیق کار یا پہلے سے تخلیق شدہ چیز میں تبدیلی، جدت یا اختراع کرنے والا خالق کائنات کا وہ باکمال بندہ ہوتا ہے جس کے ذہن وشعور کے علاوہ اس کے جسم وجان میں تخلیق کاری کی خداداد صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ذہن اور شعور کی دولت ہر بندے کو ودیعت ہوتی ہے لیکن اس دولت یا اس خداداد صلاحیت سے بھرپور استفادہ کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں اور بہت سے تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو نامناسب ماحول کی وجہ سے یا تربیت کے فقدان کے سبب بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے عہدجوانی کے آتے آتے اپنی اس پیدائشی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ جب بچہ اپنی زندگی کی پہلی درسگاہ یا تربیت گاہ یعنی ماں کی گود میں ہوتا ہے اس کی عادات واطوار کو دیکھ کر اس کے بڑے بزرگ اس کے متعلق کہنے لگتے ہیں کہ یہ بچہ بڑا ہوکر کس قسم کی عادات یا خصائل کا حامل ہوگا۔ ہم نے چھوٹے بچوں کی عادات اور اطوار کا مطالعہ کرنے والے بڑے بزرگوں سے یہ ضرب المثل یا کہاوت سن رکھی ہے کہ ”بچہ پنگوڑے ہی میں اپنی پہچان کرا لیتا ہے یا بچہ اپنے پوتڑوں ہی سے پہچانا جاتا ہے” یعنی اس کی عادات واطوار بچپن ہی میں اس کے مستقبل کے متعلق بہت کچھ بتا دیتی ہیں، جس وقت ہم اپنے بڑے بزرگوں کی زبانی ادا ہونے والے اس قسم کے جملوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اس دنیا میں آنے والے بہت سے بچے خداداد صلاحیتیں اپنے ساتھ لیکر پیدا ہوتے ہیں۔ آپ نے کسی تخلیق کار یا جدت طراز کے متعلق یہ بات تو سن رکھی ہوگی کہ فلاں بندہ اپنی فیلڈ میں نابغہ روزگار بننے کیلئے ہی پیدا ہوا تھا، فلاں فنکار پیدائشی آرٹسٹ ہے، فلاں بندہ نجیب الطرفین شاعر ادیب یا تخلیق کار ہے، اس قسم کے جملے سنے ہوں گے، یہ جملے ان باکمال لوگوںکے متعلق کہے جاتے رہے ہیں جو سچ مچ پیدا ہوتے ہی اپنے ساتھ وہ صلاحیتیں لیکر اس دنیا میںآتے ہیں جو ان کو جہاں بھر کے لاکھوں افراد میں ممیز وممتاز یا منفرد بنا کر پیش کردیتی ہیں۔ میں نے آج کے کالم کے آغاز میں یہ بات عرض کردی تھی کہ ”آج کا عالمی دن ہم اقوام متحدہ کے ہدایات کی تقلید میں منارہے ہیں، یہاں میں تخلیق اور تقلید کے درمیان فرق واضح کرنے کیلئے ان دونوں عناصر کے درمیان ہونے والے مکالمہ کی اپنی اختراع کردہ تمثیل نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں۔ عرض کیا ہے کہ ”خدمت میں تخلیق کی، تقلید نے عرض اک دن کی، تو فانی، میں لافانی ہوں، ری تیری بقاء کا راز ہے کیا، سن تقلید کی بات، تخلیق ہنسی، وہ قہقہہ جس میں خون تھا، فنکار کا دلِ مجنون تھا” ہر تخلیق کار، اپنی تخلیق میں برسوں کی ریاضت اور خون جگر پیش کرتا ہے، تب جاکر اس کی کوئی بات ازدل خیزد ودر دل ریزد کا مقام حاصل کرتی ہے، تخلیق اور اختراع کا تعلق صرف فنون لطیفہ سے نہیں ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے اور ستاروں سے آگے جہاں تلاش کرنے والے تخلیق کار بھی ہیں اور اختراع کار بھی مگر گولہ بارود توپ وتفنگ اور کورونا جیسے وائرس کے فتنہ گر موجد کس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں، اس کا فیصلہ کرنا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق راقم السطور کے بس میں نہیںکہ ہر چہرے پر چہرہ سجا ہے اور ہر ہاتھ پہ دستا نے ہیں۔
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے