آئل ڈپو میں آتشزدگی کا ناخوشگوار واقعہ

نوشہرہ کے علاقہ تاروجبہ میں آئل ڈپو کے قریب پارکنگ ایریا میں پیٹرول سے بھرے آئل ٹینکر میں آگ بھڑکنے سے قریب کھڑے 49 آئل ٹینکر آگ کی لپیٹ میں آ گئے جس سے 23 لاکھ 52 ہزار پیٹرول جل گیا اس حادثے میں نقصان کی مجموعی مالیت ایک ارب 36 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔ لاکھوں لیٹر پیٹرول کئی ہفتوں کیلئے کافی سمجھا جاتا ہے یوں دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا کا غیر معمولی نقصان ہوا ہے جس کی تلافی کیلئے خطیر لاگت درکار ہو گی۔
سکیورٹی اداروں کے مطابق وقوعہ میں تخریب کاری کے شواہد نہیں ملے ہیں تاہم سازش کے پہلو کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر ایک دو ٹینکر میں آگ لگتی تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ اتفاقی واقعہ ہے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ 49 ٹینکر آگ کی لپیٹ میں آئے ہیں، معمولی آگے لگنے کے واقعات پر قابو پانے کیلئے ڈپو میں انتظام موجود ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دانستہ طور پر پیٹرول کو ضائع کرنے کی شرارت کی گئی ہے، سو سکیورٹی اداروں کو سازشی پہلو کو سامنے رکھ کر تحقیقات کو آگے بڑھانا ہو گا۔ اسی طرح وقوعہ کی جگہ حفاظتی اقدامات کا فقدان دکھائی دیا، کیونکہ مردان سے ریسکیو کو طلب کیا گیا، جسے آتے ہوئے وقت لگا اور ریسکیو کے پہنچنے سے پہلے ناقابل تلافی نقصان ہو چکا تھا، غور طلب امر یہ بھی ہے کہ اس قدر اہم جگہ پر 49 ٹینکرز کو آگ لگ جاتی ہے اور ریسکیو سے مدد طلب کر کے آگ بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی استعداد محدود ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئل ڈپو میں آگ لگنے کے ممکنہ خدشے کو سامنے رکھ کر اقدامات نہیں کئے گئے تھے، اسے غفلت کی انتہا کہا جا سکتا ہے کیونکہ اگر خدانخواستہ کوئی بڑا واقعہ پیش آ گیا تو اس سے کیسے نمٹا جائے گا؟ سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تحقیقات کا دائرہ وسیع کریں تاکہ آئندہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات کا تدارک کیا جا سکے۔
لانگ مارچ ، کارکنان کی تربیت ضروری
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے رواں ماہ کے آخری ہفتے میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دی ہے، یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن ضروری ہے کہ احتجاج پرامن ہو، تصادم سے گریز کیا جانا چاہیے کیونکہ ٹکراؤ اور تصادم کسی بھی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے، آج جبکہ ملک کو معاشی اور دیگر چیلنجز درپیش ہیں وہاں سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے، عمران خان کی لانگ مارچ کی کال کے تناظر میں آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر تشدد کی نوبت نہیں آنی چاہیے کیونکہ اس سے ملک کا نقصان تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ہمارا قومی تشخص بھی متاثر ہوتا ہے، لہذا احتجاج کے دوران شائستگی اور مہذب راستہ اختیار کیا جائے۔ ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، اسی طرح ایک حربے کے طور پر راستے بند کر دیئے جاتے ہیں تاکہ ٹریفک جام ہو اور اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دکھایا جا سکے، راستوں کی بندش سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کئی مریض گاڑیوں یا ایمیولینسز میں تڑپ رہے ہوتے ہیں، کئی بار ایسا بھی ہو چکا ہے کہ احتجاج کے دوران ٹریفک جام سے مریض کی ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی موت واقع ہو گئی، راستوں کی بندش سے کئی لوگوں کے اہم کام رہ جا تے ہیں، اسی طرح توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ سے بھی نقصان ملک و قوم کا ہوتا ہے۔ سیاسی احتجاج کے دران ناخوشگوار کو معمول کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے یہ رجحان خطرناک ہے، اس لئے اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے اسلام آباد کی طرف مارچ سے پہلے کارکنان کی تربیت بہت ضروری ہے تاکہ ماضی جیسے ناخوشگوار واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں، عمران خان کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے کیونکہ جب ہزاروںکی تعداد میں لوگ اسلام آبادکی طرف مارچ کریں گے تو انہیں پرامن رکھنا آسان نہیں ہوگا، خاص طور پرکارکنان پرامن اسی صورت رہیں گے جب قیادت کی طرف سے ان کی ذہن سازی کی جائے اور انہیں املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی تاکید کی جائے گی، انہیں سکھایا جائے کہ مہذب معاشروں میں احتجاج کس طرح کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے کون کون سی حدود و قیود ہیں؟
چاند رات کو ہوائی فائرنگ پر پابندی کا اہم فیصلہ
خیبرپختونخوا حکومت نے چاند رات اور عید الفطر کے موقع پر ہوائی فائرنگ اور اسلحے کی نمائش پر پابندی لگا دی ہے، وزیراعلیٰ محمود خان نے ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ پولیس افسروں کو خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے، صوبائی حکومت کا یہ فیصلہ ہر لحاظ سے بہت مستحسن ہے کیونکہ ایسے مواقع پر اندھا دھند ہوائی فائرنگ سے جانی نقصان کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، یوںکچھ لوگوں کی طرف سے بے ہنگم خوشی منانے سے کئی گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے، کئی گھرانوں کا سہارا چھن جاتا ہے، عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں اور بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔
ہوائی فائرنگ پر پابندی تو ماضی میں بھی کی بار لگائی گئی لیکن مسئلہ عملدرآمد رہا ہے، پابندی کے باوجود ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں لہذا حکومت کو اپنے اس فیصلے پر سختی سے عمل کرانا ہو گا۔ اس ضمن میں پولیس کی ذمہ داری سب سے اہم ہے، پولیس کو چاہیے کہ وہ چاند رات اور عیدالفطر کے موقع پر گشت کا عمل بڑھائے، خاص طور پر گنجان آبادیوں کے اندر مؤثر نگرانی یقینی بنائی جانی چاہیے، ہوائی فائرنگ اور اسلحے کی نمائش کرنے والوں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے، اسی طرح شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ پر امن رہیں اور مہذب انداز میں خوشی منائیں، اپنی چند لمحوں کی خوشی کے لئے کسی کا گھر ماتم کدہ نہ بنائیں۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں