مگر راستے میں زمانہ پڑے گا

ملک کے اندر سیاسی درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے ‘ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو زچ کرنے کا کوئی موقع ضائع کرنے کو تیار نہیں ہیں ‘جلسوں اور ریلیوں میں اضافہ ہورہا ہے ‘ جبکہ ایک جانب انتخابات کے حوالے سے جو بیانات سامنے آرہے ہیں ان میں تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ جلد سے جلد انتخابات کا اعلان کیا جائے حالانکہ واقفان حال اسے ایک مشکل صورتحال قرار دے رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ اگر انتخابات کے جلد انعقاد کا اعلان کیا گیا تو ملک (خدانخواستہ) ڈیفالٹ کر جائے گا کیونکہ ملکی معیشت بقول بعض سیاسی رہنمائوں کے اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے اور اگر انتخابات کا اعلان کرکے موجودہ حکومت اقتدار نگران حکومت کے سپرد کرتی ہے جو آئینی تقاضا ہے تو آئی ایم ایف نگران حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرے گی اور صورتحال نازک تر ہو جائے گی ۔ باوجود یہ کہ حکومتی ذمہ داروں میں سے بھی کچھ جلد از جلد انتخابات کے حوالے سے بیانات دے چکے ہیں تاہم سابق صدر آصف علی زرداری کا موقف اس سے قطعاً مختلف ہے اور وہ پہلے ضروری انتخابی اصلاحات کے بعد ہی اگلے انتخابات کرانے پر زور دے رہے ہیں ان اصلاحات میں سابقہ حکومت کے مشینوں کے ذریعے ووٹنگ پر کئی گئی قانون سازی جو بعض سیاسی رہنمائوں کے خیال میں 2018ء کے انتخابات میں آر ٹی ایس کے ذریعے ”من پسندنتائج” کے متبادل کے طور پر کی گئی ہے’ اس کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بارے قانون میں ضروری ترامیم اور کچھ دوسرے معاملات بھی شامل ہیں ‘ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے ایک”منحرف” رکن اسمبلی نور عالم خان اور بعض دوسرے لوگ بھی اوورسیز پاکستانیوں کو دوہری شہریت کے ناتے ووٹ دینے کے حق میں نہیں ہیں ‘ یہاں تک کہ اس وقت ٹویٹر اور دیگر دیگر سوشل ایپس پر خود بعض اوورسیز پاکستانی بھی یہ موقف اختیار کئے نظر آتے ہیں کہ وہ ایک عرصہ سے بیرون ملک مقیم ہیں اور وہاں کی شہریت کے ناتے ان ملکوں کے سیاسی ماحول کا حصہ ہوتے ہوئے اپنے ووٹ بھی پول کر رہے ہیں اس لئے وہ پاکستان میں ووٹ کے خود کو حقدارنہیں سمجھتے ‘ نور عالم خان اور ان کی سوچ سے اتفاق رکھنے والوں کا موقف ہے کہ جو لوگ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حقدار سمجھتے ہیں دراصل وہ ان لوگوں سے بھاری چندہ وصول کرتے ہیں اور اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اتنا ہی شوق ہے کہ وہ پاکستان کے انتخابی عمل کا حصہ بنیں تو وہ دوسری شہریت چھوڑ کر ان ممالک کے پاسپورٹ واپس کریں پھر بے شک پاکستان میں آکر ووٹ کا حق مانگیں ‘ یعنی بقول خمار بارہ بنکوی
خماران کے گھر جا رہے ہو تو جائو
مگر راستے میں زمانہ پڑے گا
بہرحال یہ ایک گنجلک مسئلہ ہے جسے سلجھانے میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو بقول ایوب خاور کچھ ایسی ہی ہے یعنی
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
ادھر صدر مملکت نے مبینہ حکومتی تبدیلی سازش کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے لئے چیف جسٹس کو خط لکھ کر چیف جسٹس سے کہا ہے کہ وہ کمیشن کی سربراہی ترجیحاً خود کریں ‘ صدر مملکت نے کہا ہے کہ ملک کو سیاسی و معاشی بحران سے بچانے ‘ صورتحال مزید بگڑنے سے روکنے کی ضرورت ہے ‘ ملک میں ایک سنگین سیاسی بحران منڈلا رہا ہے ‘ صدر مملکت نے کہا کہ حالیہ واقعات کے تناظر میں پاکستان کے عوام میں بڑی سیاسی تفریق پیدا ہو رہی ہے ‘ تمام اداروں کا فرض ہے کہ ملک کو مزید بگاڑ اورنقصان سے بچانے کے لئے بھر پور کوششیں کریں ۔ جہاں تک صدر مملکت کے خیالات عالیہ کا تعلق ہے ان سے پرہر ذی ہوش اتفاق کئے بناء نہیں رہ سکتا مگر اس پر فارسی کا وہ مقولہ کس حد تک منطبق کیا جا سکتا ہے کہ چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ داری ‘ چیف جسٹس کو خط لکھتے ہوئے جن نکات کی جانب موصوف نے توجہ دلائی ہے ان کو اگر وہ اپنے ”حالیہ کردار” کے آئینے میں غیر جانبدارانہ انداز میں خود اپنے ہی اختیار کئے ہوئے غیر آئینی اقدامات کے تناظر میں دیکھنے کی زحمت کرتے تو ان کی کیفیت مومن خان مومن کے اس شعر سے مختلف نہ ہوتی کہ
تاب نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
موصوف کو شاید آج تک پتہ نہیں چلا کہ بطور صدر مملکت اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد ان سے مکمل غیر جانبداری کی جو توقعات آئینی تقاضا تھیں ‘ انہوں نے ا ن کا کوئی پاس نہیں رکھا ‘بلکہ آج تک انہوں نے خود کو اپنی جماعت کا رکن تصور کرتے ہوئے پارٹی قیادت کی خوشنودی کو مقدم رکھا ہے ‘ اس لئے انہوں نے اپنی جماعت کے دیگر آئین شکنوں یعنی سپیکرو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے ان اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جوتحریک عدم اعتماد کے حوالے سے انہوں نے بھی اپنے مناصب کے آئینی تقاضوں کے علی الرغم اٹھائے ‘ اور ہر ہر قدم پر نہ صرف تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی طریقوں سے ناکام بنانے کی حوصلہ افزائی کی بلکہ پنجاب میں بھی اسی قسم کے اقدامات کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے آئین شکنی کی نئی روایات قائم کیں اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جس سے ملک کے بڑے صوبے میں سنگین آئینی بحران جنم لے چکا ہے اس کے باوجود موصوف چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر اداروں کو خط لکھ کر خود کو”معصوم” ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ‘ اب یہ تو چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر اداروں کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ اس خط پر کیا اقدام کرتے ہیں ‘ کرتے بھی ہیں یا نہیں ‘ البتہ گزشتہ کچھ عرصے سے یعنی عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ‘ پنجاب کے اندر آئینی تبدیلیوں کے حوالے سے صدرمملکت ‘ سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی و پنجاب اسمبلی اور گورنر(سابقہ) پنجاب سرفراز چیمہ کے مبینہ آئین شکن اقدامات کے تناظر میں مستقبل میں اسی نوعیت کے حالات سے بچنے کے لئے بھی موجودہ وفاقی حکومت کو ایسی قانون سازی پر ضرور غور کرنا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی بھی ”طالع آزما آئین شکن” ملک کو کسی سیاسی بحران میں مبتلا کرنے کی کوشش کرکے آئینی بحران پیدا نہ کر سکے ۔
بھرے بازار میں تم جھوٹ ‘ میں سچ بیچتا تھا
تمہارے گرد جمگھٹے تھے میں محروم گاہک تھا

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟