اندرونی و بیرونی چیلنجز

آئے دن کوئی نہ کوئی شوشا چھوڑتا رہتا ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے تو افغانستان منتقلی کی دھمکی دے دی۔ وزیراعلیٰ کے اس بیان پر بہت سوں کو مایوسی ہوئی جو ان کو قریب سے جانتے تھے۔ مرکز کے جن رہنمائوں کی کچھ بھی کہنے کی عادت تھی وہ بالآخر اٹک پار کرکے خیبرپختونخوا میں پہنچ گئی ہے۔ تحریک انصاف کے حوالہ سے تاثر یہ تھا کہ جو رہنما چیخ چیخ کر مخالفین کے بخیئے ادھیڑنے اور پگڑیاں اچھالنے کی حد کراس کردیتا بنی گالہ میں اس کو بھرپور داد دی جاتی تھی۔ ایسے میں حکمران اتحاد مسلسل اپنی توجہ اقتصادی بحالی پر مرکوزکئے ہوئے ہے۔ وزیراعظم کابینہ کے کچھ ممبران کے ساتھ لندن گئے تو تنقید کے ساتھ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ وہ لوگ جو تحریک انصاف حکومت کے خاتمہ کے لئے دن رات کوشاں تھے اب حکمران اتحاد کے پیچھے پڑ گئے۔حکومت کی تبدیلی اب ایک سیاسی عمل سے زیادہ ایک کھیل بن چکی ہے۔ سابق وزیر اعظم سرکس میں موت کے کنوئیں سے باہر تماشہ لگائے ہوئے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مسلسل نیوٹرل رہنے لگی ہے۔ معلوم ہوا کہ حکمران اتحاد کا یہی گلہ ہے۔ تاثر یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے سابق وزیراعظم کو بچانے کے لئے اس کی حکومت تبدیل کرنے سے نہیں روکی۔ اس طرح بدترین معاشی صورتحال میں بجٹ پیش کرکے حکمران اتحاد عوامی غیض وغضب کا شکار ہوگی۔ جلد از جلد الیکشن کے نتیجے میں تحریک انصاف ایک بار پھر اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ جائے گی۔ یہ سوچ کر (ن) لیگ کے کچھ حلقوں نے یہ رائے اختیار کی کہ وزیراعظم میاں شہبازشریف قوم سے خطاب کریں۔ قوم سے خطاب میں وہ عوام کو بتائیں کہ ان کو کہا جا رہا ہے کہ سابق حکومت کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور پھر الیکشن میں جائیں۔ یہ بھی کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کی کوئی مدد نہیں کی جا رہی ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان کو اس وقت بھی بھرپور تحفظ حاصل ہے۔ اس سارے عمل میں اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لئے سخت فیصلوں کے نتیجے میں عوام پر مہنگائی کا بے پناہ بوجھ پڑے گا اور وہ عوام کی نظر میں ولن بن جائیں گے۔ اس لئے وہ حکومت چھوڑ رہے ہیں اور جن کو لگتا ہے کہ وہ اس حالت میں حکومت چلا سکتے ہیں وہ آ کر چلائیں۔ عجب تماشہ لگا ہے شہر اقتدار میں کہ خود اقتدار کی کرسی سے بھی لوگ ڈرنے لگے ہیں۔ اب تو ایسے لگتا ہے کہ گھر میں لٹنے کو بھی کچھ نہیں بچا ہے۔ معاشی امداد دینے والے تمام ملکوں یہاں تک کہ چین نے بھی کہہ دیا کہ پیسے اس صورت میں دے گا جب آئی ایم ایف سے معاملات ٹھیک ہوں گے۔ ویسے ایک دور کی یاد آنے لگی جب ہمیں کہا جاتا تھا کہ امریکہ کا کھیل ختم اب چین’ ترکی’ روس’ ایران کے ساتھ مل کر ایک نیا اتحاد جنم لے گا اور پاکستان اس اتحاد میں اسلامی ممالک کے بلاک کو لے کر آگے بڑھے گا۔ ہم بھی چپ ہو جاتے تھے کہ ممکن تو کچھ بھی ہے۔ اب جا کے معلوم ہوا کہ عالمی طاقتیں یوں ہی عالمی طاقتیں نہیں بنتیں۔ اس چکر میں ہم کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے ہیں۔ ایران ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، روس کو ایک جنگ میں دھکیل کر پابندیوں کا شکار کرکے ایران بنایا جا رہا ہے، ترکی معاشی تباہی کے راستے پر چل کر سعودی عرب کے در پر حاضری لگاتا نظر آ رہا ہے۔ چین نے فورا ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں اورالٹا ہمیں بھی سمجھا رہا ہے کہ ہم اپنے معاملات ٹھیک کر دیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری آخری امید لے کر امریکہ پہنچے۔ بیانات کی حد تک تو صورتحال میں بہتری کی امید ظاہر کی گئی ہے لیکن نتیجہ قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے بعد نکلے گا۔ اگر تو نتیجہ مثبت نکلا جیسے کہ توقع ہے تو بہتر ورنہ حکمران اتحاد قطعاً یہ بار اٹھانے کو تیار نہیں اور ہونا بھی ایسے چاہئے۔ کون نقصان اٹھانے کے لئے سیاست کرتا ہے۔ جب آپ کو پتا ہو کہ حکومت میں رہنے سے بربادی اور سیاست کا خاتمہ ہی ہوگا تب پاگل ہی ہو گا جو حکومت میں رہے۔ لیکن کیا حکومت چھوڑنے سے حالات بہتر ہوجائیں گے؟ کیا انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آئے گی اسے بہتر پاکستان ملے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو قابل توجہ ہیں۔
یہ تو اقتصادی صورتحال تھی لیکن پختونخوا کو اس وقت اس سے بھی خراب صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امن وامان اور دہشت گردی کا غفریت ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے۔ پولیس اور حساس اداروں کے اہلکار براہ راست نشانہ بن رہے ہیں۔ ایسے میں صوبائی حکومت احتجاجی سیاست میں مصروف ہے۔ ایسے میں بچوں کی طرح وزیراعظم اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ایک دوسرے کی طرف پشت کرکے روٹھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ کیا کسی کو بھی یہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس دفعہ عسکریت پسندی کی جو آگ بھڑکی ہے یقین مانئے وہ ماضی سے زیادہ ہولناک اور مقابلہ میں مشکل ہوگی۔ اس وقت شدید ضرورت ہے کہ تمام ادارے اور حکومت ایک ہی صفحہ پر ہوں۔ لیکن ایسا ہوتا فی الوقت مشکل نظر آرہا ہے۔ اس کی ایک تاریخی وجہ ہے کہ ہر طوفان کا آغاز خیبرپختونخوا سے ہوتا ہے اور بدقسمتی سے اس کو توجہ نہیں دی جاتی۔ اس بار تو خیر حد ہی ہوئی ہے۔ خود صوبائی حکومت نے اس پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ روزانہ کی بنیادوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن مجال ہے کہ حکومت نے بات کی ہو۔ شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ماضی کا فاٹا اب خیبرپختونخوا کا حصہ ہے۔ جو کچھ امن وامان کے حوالہ سے ہو رہا ہے کوئی اور حکومت ہوتی تو روزانہ کی بنیادوں پر پریس کانفرنس کر رہی ہوتی۔ حالت یہ ہے کہ سکھ برادری کو گلہ ہے کہ ان کے پرسہ کے لئے حکومت موجود ہی نہیں ہے۔ ایک عجیب سے ڈر کا احساس ہورہا ہے کہ شاید حکومت جو کہ ماضی میں اور شاید اب تک طالبان کی حمایتی سمجھی جاتی ہے وہ اس جنگ اور اس میں شہادتوں کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ حالانکہ کالعدم تحریک سے مذاکرات کی اطلاعات ہیں لیکن مجال ہے کہ صوبائی حکومت نے ایک لفظ تک ادا کیا ہو۔ بات یہاں تک پہنچی کہ باجوڑ میں خود ان کے پارٹی رہنما دہشت گردی کا نشانہ بنے لیکن ان کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ جاکر پوچھیں تو سہی کہ طالبان کے ساتھ تمام تر ہمدردیوں کے الزامات کے باوجود ان کے ساتھی کو کیوں مارا گیا۔ تو جو اپنے رہنمائوں کا نہیں پوچھ سکتی تو ان سے سکھ برادری اور باقی عوام کا دکھ جاننے کی کوشش کیا کریں گے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب