کام تو اچھا ہے اگر عمل ہوا

یہ کام بہت پہلے بلکہ پچھلی حکومت کو ہی کر لینا چاہئے تھا پھر بھی تاخیر سے سہی اب ”امریکی سازش کے تحت اقتدار میں آنے والی” وفاقی حکومت نے بیرون ملک سے موبائل فون’ گاڑیاں ‘ میک اپ کا سامان’ چاکلیٹ’ چشمے’ جوسز’ سگریٹ’ اسلحہ جیولری سمیت 38 سے زائد لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ قیمتی گاڑیوں اور بعض دوسری اشیاء کی درآمد پر پابندی کافیصلہ بجا طور پر درست ہے صرف غیرملکی سگریٹ پر پابندی سے ہی ایک اندازہ کے مطابق سالانہ 40 ارب روپے کی ٹیکس چوری روکی جا سکے گی۔ کیونکہ ان میں سے زیادہ تر اشیاء کی مقامی مارکیٹ میں کھپت قانونی طریقے سے درآمد کے ذریعے پوری نہیں ہوتی بلکہ سمگلنگ سے ہوتی ہے۔ ماضی میں افغان ٹریڈ کا سہارا لے کر لگژری آئٹمز کا کاروبار ہوا ۔ پشاور کے قریب کارخانوں مارکیٹ کی وسیع و عریض مارکیٹیں افغان ٹریڈ کے ذریعے منگوائی گئی غیرملکی اشیاء سے بھری پڑی ہیں۔ ایکڑوں پر پھیلی کئی کئی منزلہ کارخانوں مارکیٹ راتوں رات قائم ہوئی نہ سمگل شدہ سامان فروخت کرنے کی سب سے بڑی منڈی کا درجہ حاصل کرگئی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت 270 درآمدی اشیا کی ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز پر غور کررہی ہے۔اس ضمن میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ حکومت غوروفکر کے وقت کو مختصر کرے اور کسی تاخیر کے بغیر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ ہماری دانست میں کاروباری حلقوں کی یہ تجویز بجا طور پر درست ہے کہ18سوسی سی اور اس سے اوپر کی گاڑیاں منگوانے پر ٹیکس بڑھانے کی بجائے مکمل پابندی لگائی جائے۔
اس امر پر دورائے ہر گز نہیں کہ لگژری آئٹمز پر پابندی اور بعض پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے کی سوچ اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ مسئلہ کا حتمی حل ہرگز نہیں۔ معاشی بحران سے نکلنا ہے تو غیرپیداواری اخراجات میں کمی لانا ہوگی بالخصوص دفاعی بجٹ پر نظر ثانی چاہے یہ قلیل وقت کیلئے ہی ہو۔ عوام اور اس کی حالت زار کو مدنظر رکھ کر ارباب سیاست اور خصوصاً جو حکومتوں کا حصہ بنتے ہیں یا اس وقت حکومت کا حصہ ہیں انہیں چاہیے کہ وہ مراعات سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو جائیں۔ کسی بھی شعبہ میں مفت بجلی و گیس اور فون کی سہولت کسی بھی طور پر فراہم نہیں کی جانی چاہئیں۔ ریٹائرمنٹ پر سرکاری اراضی افسر شاہی کو الاٹ کرنے کی بجائے یہ بے زمین کاشتکاروں کو الاٹ کی جائے۔ صحت و تعلیم کے علاوہ تمام شعبوں کے سالانہ مالیاتی حصے میں سے کم از کم 20فیصد کمی فوری طور پر لائی جائے۔ ہمارے سیاستدانوں بالخصوص ارکان اسمبلی کی بڑی اکثریت متمول طبقات سے تعلق رکھتی ہے یہ صاحبان اگر ملک اور عوام کی خاطر تنخواہوں اور مراعات سے ایک خاص مدت کے لئے دستبردار ہو جائیں تو اس سے نہ صرف بچت ہوگی بلکہ خوشگوار تاثر بھی پیدا ہوگا۔ معاشرے کے بڑے طبقات ایک مثال قائم کریں یقینا پھر ہر شخص اس میں اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ معاشی بحران اور مسائل سے نکلنے کیلئے ہر کس و ناکس کو کچھ نہ کچھ قربانی دینا ہی پڑے گی اس کے بغیر مشکلات اور مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوا جاسکتا۔ ہم مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ لگژری آئٹمز کی سمگلنگ کا ہر دروازہ بشمول افغان ٹریڈ بند کرنا ہوگا۔ افغانستان اور ایران سے ملحقہ بارڈرز پر مینجمنٹ کو مزید بہتر بنانے کے ساتھ اس امر کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ یہ مقامات کمائی کا ذریعہ نہ رہیں کیونکہ اگر حکومت نے چور دروازے بند نہ کئے تو پھر ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ عرض کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ مقامی اشیا کی پیداوار اور معیار کو بہتر بنایا جائے۔ زرعی شعبہ کو انقلابی خطوط پر منظم کیا جائے۔ کس قدر نامناسب بات ہے کہ ایک زرعی ملک کو سالانہ اربوں ڈالر زرعی اجناس منگوانے پر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ذاتی طبقاتی اور سیاسی مفادات کی سطح سے اوپر اٹھ کر ملک اور عوام کے وسیع تو مفاد میں فیصلے کرنے اور ان پر سختی سے عمل کرانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے ذمہ داران اگر یہ چاہتے ہیں کہ مشکلات کم ہوں اور آئندہ نسلوں کو محفوظ ترقی یافتہ اور مستحکم پاکستان ملے تو بہت ضروری ہے کہ طویل المدتی پالیسیاں وضع کی جائیں اور ان پر اخلاص کے ساتھ عمل کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ بدحالی اور ابتری کی جگہ تعمیروترقی کا نیا دور شروع ہو۔ وہ ملکی خزانہ کی صورت میں ہوں یا براہ راست بوجھ کی صورت میں۔ حکومتی شخصیات اندرون و بیرون ملک سفر کے لئے اکانومی کلاس سے سفر کریں، بیرون ملک پر تعیش قیام گاہوں پر رہنے کی بجائے سادگی کا مظاہرہ کریں۔ غیرضروری بیرون ملکی دوروں اور بھاری بھرکم وفود کا سلسلہ بھی بند کردیا جانا چاہیے۔ ممالک سے روابط اور دیگر امور کی انجام دہی کے لئے بیرون ملک جانے والے وفود مختصر ہوں۔ کوئی بھی ذی شعور شخص اس امر سے انکار نہیں کرسکتا کہ معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے اگر ہر شخص اپنے اپنے حصے کا فرض ادا نہیں کرتا تو پھر زبانی کلامی جو مرضی کہتے رہیں پابندی جتنی مرضی لگالیں، اہداف کا حصول ممکن نہیں۔ اہداف کے حصول کے لئے حقیقت پسندانہ طرزعمل اپنانا ہوگا۔ ہماری رائے میں یہ تجویز بھی مناسب ہے کہ حکومتی شخصیات اور افسر شاہی کو دی جانے والی مراعات کو خود انحصاری کے فروغ کے لئے استعمال میں لایا جائے۔ وی آئی پی اور وی وی آئی پی موومنٹ میں گاڑیوں کا لشکر گھمانے کی بجائے ان کی تعداد کم سے کم رکھی جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ارباب اختیار و حکومت ان معروضات پر غور کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ ملک کو موجودہ معاشی اور دیگر مسائل سے نکالنے کے لئے اجتماعی طور پر انقلابی خطوط پر کام ہو اور ہر شخص بہتری لانے کے عمل میں اپنا حصہ ڈالے۔ ملی جذبے اور احساس ذمہ داری کے مظاہرے سے ہی تعمیر نو کے اہداف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے قدموں پر کھڑا ہوسکتے ہیں۔ تقاریر، اعلانات اور اپیلوں سے زیادہ اہم اور ضروری عملیت پسندی کا مظاہرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اگر حقیقت پسندانہ طرزعمل نہ اپنایا گیا تو آنے والے دن آج کے مقابلہ میں زیادہ سخت ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟