نہ تین میں نہ تیر ہ میں

وزیرخاجہ بلاول بھٹوتین روز کا بیر ون ملک دورہ کا ٹ کر واپس وطن پلٹ آئے ہیںان کے اس دورے پر ندیم ومونس ہی نہیں سب نظریں لگائے ہوئے تھے کہ ایک نوجوان جس نے اقتدار کے نرم ونا زک مہد میں نظریں نہیں کھولی ہیں بلکہ سیا ست کی خار دار جھا ڑیو ں سے نبرو آزما اور الجھن میں آنکھیں وا کی ہو ں وہ کیسے ایک منجھے ہوئے وزیر کی طرح خارجی امو ر سے نمٹے گا بہرحال توقعات کے مطابق بلاول بھٹونے اپنے دورے کے دوران یو کرائن جنگ ، افغان حالات ، اورمقبوضہ کشمیر میں بھارت کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے جیسے مسائل پر پا کستان کے مئو قف کی وضاحت بڑی خوبصورتی سے پیش کی ، سب سے بڑھ کر وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے نمبرنگ گیم کی بجائے پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھا ، روس کے معاملے پر انھو ں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کے مئوقف سے کس سیاستدان کو فائدہ ہو گا بلکہ انھو ں نے قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے دو ٹوک سابق وزیر اعظم کے دورہ روس کی حمایت کرتے ہوئے صاف کہا کہ سابق وزیر اعظم پاکستان کا دورئہ روس پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مطابق تھا یہ الگ بات ہے کہ اس وقت روس اور یوکرائن کی جنگ چھڑگئی جس سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ۔بلاول بھٹونے یو ں نہ صرف پا کستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی وضاحت کی بلکہ اپنے انتہائی مخالف سیاستدان کی پاکستان کے مفاد میں اٹھائے گئے اقدام کی بھی کھل کر حمایت کی جو پاکستان کی سیاست میں بہت کم کیا بلکہ نظر ہی نہیں آتا یہ اعلیٰ ظرفی کی عمد ہ مثال ہے ، یہ سیاست کا ملکہ بھی ہے ۔پاکستان کے وزیر خارجہ کی امریکی اسٹنٹ سیکرٹری اسٹیٹ (نائب امریکی وزیر خارجہ )ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ایک اجلا س کے دوران ملا قات ہوئی ، ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان میں امریکی خط کی بناء پر جانا جاتاہے ،جسے عمران خان نے اپنی حکومت گرانے کی ساز ش قرار دیا تھا تاہم امریکا اور پا کستان دونو ں کے عہد ید اروں نے عمر ان خان کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا ۔اس خط کے بارے میں کئی مرتبہ وضاحتیں ہو چکی ہیں مگر عمر ان نے اس خط کو اپنے لیے حرز جان بنا رکھاہے کیو نکہ ان کے پا س عوام سے ووٹ مانگنے کی کوئی کا رکر دگی نہیں ہے سوائے اس خط کے دوسراراستہ ہی نہیں اور یہ نشانہ درست لگا بھی ہے کہ ان کی سیاست بازی اسی کی بدولت زندہ ہوگئی ہے ۔عمر ان خان نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے نیو ٹر ل کے نمبر بلا ک کردئیے ہیں جس کے جواب میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں میں سے کہا گیا کہ عمران خان نے نمبر بلا ک نہیں کیے ہیں بلکہ انھو ں نے عمر ان خان کے نمبر بلا ک کیے ہیں ۔عمران خان کو انتخابات کی جلدی پڑی ہوئی ہے ان کی تو سمجھ میں آتی ہے کیو ں کہ وہ جس امریکی خط کا قضیئة لیے بیٹھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر وقت انتخابات کے لیے اسی رفتار سے چلتا رہا تو ان کا خط حرزجان سے پرگندہ بن جائے گا ، ادھر اوپرتلے حکمران گروپ کے بیا نا ت نے بھی ایک نئی سوچ میں ڈال دیا ہے ، نہ صرف سیاستدانو ں کے حلقوں میں ہائی پروفائل مقدما ت کے بارے میں از خود نو ٹس پر بحث ہورہی ہے بلکہ وکلاء برادری نے بھی اپنے تحفظات کا اظہا ر کیا ہے ، پا کستان جو سنگین معاشی بحران کا شکا ر ہے وہا ں ایسا لگ رہا ہے کہ وہ آئینی بحران میں بھی مبتلاء ہو تا جا رہا ہے ۔اب تو یہ سمجھا جا نے لگا ہے کہ منصوبہ بندی کے ساتھ پی ٹی آئی کی کا رکر دگی کا پھندہ خوبصورتی سے مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیو ں گل زہر ہ جمال جا ن کر اپنے گلے میں ڈال لیا ،اب وہ زہر ہ آب آب ہو رہا ہے ۔ تاہم حکومت کے بعض اہم لیڈروں کی جا نب سے کھلے عام کہا جانے لگا ہے کہ ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں ، وفاقی وزیر خورشید شاہ پی پی کے وہ لیڈر ہیں جو ٹھنڈے انداز میں گر م سے گرم بات منہ سے نکال جاتے ہیں گزشتہ روز انھو ں نے اپنی تقریر میں جو جھاڑ سنائی ہے وہ بپھری ہوئی محسو س کی گئی انھو ں نے تلخ لہجہ میں فرمایا کہ حکومت کو کا م کرنے دیا جائے یا پھر جن کو حکومت میں لا نا ہے ان کو لے آئیں اور وہ حکومت کریں ۔ہماری جا ن چھوڑیں ، ادھر مولا نا فضل الرّحمان نے کراچی میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جوڈیشنل معاملات پر گرم گرم الفاظ استعمال کیے تاہم ان دنو ں جو کچھ ہو ا ہے اس میں بقول قلقلا خان بابارحمتے کی یا د عود کر آئی ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے بارے میںیہ سوچ تھی کہ نو از شریف اور مریم نواز قابل قبول نہیں ہیں مگر شہباز شریف قبولیت میں اول درجہ رکھتے ہیں ۔ لیکن جن حالات سے وہ دوچار ہو رہے ہیں اس پر تو یہ ہی لگ رہا ہے کہ ان کے لیے بھی قبولیت کا وقت رفت اور بس ، اب تو تحریک عدم اعتما د لا نے والے کہنے لگے ہیں کہ ثمر تحریک عدم اعتما د سے مٹھاس نہیں ٹپکی بلکہ ترشی بہہ نکلی ،جو اب تلخی میں بٹ رہی ہے ۔یہ توپہلے سوچنا چاہیے تھا کہ نو از شریف کا بیانیہ ہی درست تھا ، اب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی کس طور دوتہائی اکثریت لے پائے گی اور باقی عزائم پوری کرے گی جس ایجنڈے پر ان کو لایا گیا ، ادھریہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کی جگہ ٹیکنو کریٹ حکومت لے گی اور ہو سکتا ہے اس کی مدت کم از کم ایک سال ہو ۔ آئین میں تو اس کی گنجائش نہیں ہے مگر یا د رہے کہ معین قریشی نے عبوری حکومت میں آئین میں ازخود ترمیم یہ کہہ کرکی تھی کہ عبوری حکومت بھی آئینی حکومت ہے جب پا رلیمنٹ نہیں ہے تو یہ اختیا ر عبوری حکومت کا ہے کہ وہ آئین سازی اورقانون سازی کرے ، حالاں کہ کوئی بھی عبوری حکومت یا عہد ہ یہ حق نہیںرکھتا کہ وہ پالیسی ساز فیصلے کرے آئین ساز ی تو دور کی بات ہے ۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟