اداروں پر بداعتمادی خطرناک رحجان

مختلف سیاسی جماعتوں اور عناصر کی طرف سے پاکستان کے ریاستی اداروں پر تنقید کئے جانے کی طویل تاریخ ہے،اس ملک نے سیاست میں بار ہا فوجی مداخلتوں اور ایسے متنازع عدالتی فیصلوں کو دیکھا ہے جنہوں نے نظریہ ضرورت کو جنم دیا لیکن اب جبکہ عدلیہ اور فوج آئینی دائرے میں رہتے ہوئے کام کر رہی ہیں انہیں مسلسل تنقید کا سامنا ہے، یہ تمام تر تنقید سابق حکمراں جماعت کی طرف سے کی جا رہی ہے جو چاہتی ہے کہ مذکورہ دونوں ادارے اس کی حمایت کریں،جب انہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی خواہش پوری نہیں ہورہی اور عدالتی فیصلے بھی ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہیں تو وہ دباؤ بڑھانے کے لئے تنقید کا سلسلہ تیز کر رہے ہیں، اس صورت حال پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے بیان جاری کیا گیا جس میں فوج کو سیاست میں گھسیٹنے پر خبردار کیا گیا۔ اسی طرح اعلیٰ عدلیہ نے بھی تنقید پر اپنا رد عمل دیا، ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کسی کو یہ ذیب نہیں دیتا کہ وہ محض اس بنیاد پر تنقید کرے کہ بعض فیصلوں نے اسے خوش نہیں کیا۔ انہوںنے کہاکہ آئین وفاق کو متحد کرتا ہے اور عدالت عظمیٰ آئین کی محافظ ہونے کی حیثیت سے کسی بھی قسم کی تنقید کے باوجود اپنا کام جاری رکھے گی۔ اسی طرح چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ وہ پارٹی کی قیادت سے پوچھیں کہ آیا انہیں عدلیہ پر اعتماد ہے ۔ انہوں نے کہاکہ درخواست گزار اور اس کی پارٹی کی قیادت کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ انہیں ہائیکورٹ کی غیرجانبداری اور آزادی سے متعلق شکوک و شبہات ہیں۔
پی ٹی آئی رہنمائوں کی جانب سے اداروں پر تنقید کسی زیادتی اور غصے کی وجہ سے غیر ارادادی فعل نہیں ہے بلکہ یہ ایک دانستہ سیاسی حربہ ہے جس کا مقصد عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ دونوں کو دفاعی پوزیشن پر لانے کے لئے زیادہ سے زیادہ عوامی دبا بڑھانا ہے تاکہ وہ اپنے مطالبات منوا سکیں یا پھر عدالتوں یا الیکشن کمیشن کے معاملے میں پارٹی کی خواہشات کی پوری ہوسکیں، اس کے لئے عوامی جلسوں میں لوگوں کی تائید کے نعرے لگوانے کے لیے ریاستی اداروں پر تنقید کی جاتی ہے، درحقیقت پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ادارے بھی ان کی حکومت کو ہٹانے کی غیر ملکی سازش کا حصہ بنے، عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر پر بھی جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں، اسی طرح وہ میڈیا پر بھی تنقید کر رہے ہیں اور اپنے نقادوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ یہ کام غیر ملکی ایماء پر کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا سابق وزیراعظم اور ان کے حامیوں کو اپنی اس سیاسی حکمت عملی کے نتائج کا احساس ہے، اعلیٰ عوامی عہدوں پر فائز رہنے والے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے عدالتی احکامات اور آئینی طور پر طے شدہ طریقہ کار سے روگردانی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنے قول و فعل دونوں میں قوانین اور آئین کے مطابق چلنے سے گریزان ہیں، یہ صورت حال جمہوری اقدار اور جمہوری نظام کے لئے ایک چیلنج ہے، جب ایک نمایاں طبقہ اداروں پر بداعتمادی کی حوصلہ افزائی کرے گی تو اس سے پورے سیاسی نظام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا، دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ طرز عمل پارٹی کو ایک ایسی خطرناک ڈگر پر ڈال رہا ہے جہاں نہ صرف اداروں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے بلکہ اداروں کو اس کے حامیوں کی نظروں میں غیر قانونی بھی قرار دیا جا رہا ہے جو اب اپنے قائدین کی خواہشات کے برعکس کسی بھی چیز کو مسترد کرنے کے لیے تیار ہیںیہ صورت حال آئینی اور ادارہ جاتی فریم ورک کیلئے نقصان دہ ہے، اس طرزعمل کا براہ راست اثرآنے والے انتخابات پربھی پڑ رہا ہے جنہیں موجودہ سیاسی بحران اور حکومت اور اپوزیشن کے تصادم کی روک تھام کے لئے ایک حل کے طور پر دیکھا جارہا ہے ،بہت سے غیر جانبدار مبصرین سمجھتے ہیں کہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کا واحد حل انتخابات ہی ہیں لیکن الیکشن کمیشن سمیت اداروں کو نشانہ بنائے جانے سے یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت حال میں انتخابی نتائج کو ہارنے والا فریق قبول کرے گا۔ اگر ایک جماعت پارلیمانی عمل کے نتیجے کو قبول نہیں کررہی ہے جس کے تحت اس کی حکومت ختم ہوئی،اسی طرح وہ عدالتی فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتی جس کے تحت تحلیل شدہ اسمبلی بحال ہوئی تو کیا ضمانت ہے کہ وہ انتخابی نتیجے کو تسلیم کرے گی جس میں ووٹرز اسے مسترد کردیں۔
ہر معاملے پر سیاست انتخابات تک لے جانے والے عمل کو بھی انتہائی متنازع اور غیر یقینی بنا دیتی ہے،مثلاً موجودہ صورت حال میں عبوری حکومت ، جسے آئین کے تحت قائم کیا جانا ہے،اس کی تشکیل پر اتفاق رائے بھی پہلا بڑا چیلنج ہو گا۔اسی طرح اگر پی ٹی آئی الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی رہی تو ضابطہ اخلاق اور قواعدوضوابط پر اتفاق بھی بڑے چیلنج کے مترادف ہے۔(بشکریہ، ڈان، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''