بحران سے کیسے نکلیں؟

سیاسی حالات کسی بڑے بحران کی خبر دے رہے ہیں، مگر اہل سیاست کو اس کی فکر نہیں، کیونکہ عام آدمی کے جو مسائل ہیں وہ اس سے بے نیاز ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے اندر جس کوفت سے عوام گزرے ہیں سیاستدانوں کو شاید اس کا ادراک نہیں ہے، یہی صورتحال مزید کچھ دنوں تک برقرار رہی تو کئی لوگ نفسیاتی مریض بن جائیں گے۔
تحریک انصاف مخالف اتحادی جماعتوں نے مہنگائی کو جواز بنا کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جس کے نتیجے میں نو اپریل کو تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گئی، توقع کی جا رہی تھی کہ اتحادی جماعتیں تعاون باہمی سے ملک کو بحران سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گی مگر ابھی ٹھیک سے وزراء نے قلمدان بھی نہیں سنبھالے ہیں کہ اس حکومت کو رخصت کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک لمحے کیلئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ اتحادی حکومت ختم ہو جاتی ہے اور نئے الیکشن کیلئے نگران حکومت ملک کے باگ ڈور سنبھال لیتی ہے تو کیا اس اقدام سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے؟
اس سوال کا جواب جاننے کیلئے گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ غلط تھا، اب حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر عمران خان کو ہٹانا ناگزیر ہو گیا تھا تو فوری نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا جو سب کو قا بل قبول ہوتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اور سیاسی عدم استحکام اس قدر بڑھا کہ نو منتخب اتحادی حکومت کیلئے مدت پوری کرنا مشکل ہو گئی ہے۔ جب نگران حکومت قائم ہو گی تو اس کیلئے اتحادی حکومت سے زیادہ مشکلات ہوں گی، بحران شدت اختیار کر جائے گا اور نئے انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہو گا اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔
دیکھا جائے تو بحران کی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام اور حکومتوں کا وقت سے پہلے رخصت ہونا ہے، وقت سے پہلے کسی بھی حکومت کو ہٹانے کی روایت اب ختم ہونی چاہئے۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ مایوس کن کارکردگی پیش کرنے والی جماعت کو آئندہ الیکشن میں مسترد کر دیں۔ اس پس منظرکے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو غلطی تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹاتے وقت کی گئی ہے اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جائے۔ موجودہ اتحادی حکومت کو ڈیڑھ سال پورا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس کی دو امکانی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
ایک یہ کہ اتحادی حکومت معاشی بحران پر قابو پا لے، اگر حقیقی معنوں میں ایسا ہوتا ہے تو ملک کے وسیع تر مفاد کو دیکھتے ہوئے اس کی ستائش کی جانی چاہئے کیونکہ ہر سیاسی جماعت کے پیش نظر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی ہے۔ دوسری صورت اتحادی حکومت کی ناکامی کی ہو سکتی ہے اگر اتحادی حکومت ڈیڑھ سال کا عرصہ گزارنے کے بعد بھی معاشی بحران پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا، اگلے الیکشن میں اتحادی جماعتوں کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا جسے عوام کے سامنے پیش کیا جا سکے بلکہ ایک اعتبار سے اتحادی جماعتیں تحریک انصاف کیلئے کامیابی کی راہ ہموار کر دیں گی۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف اتحادی جماعتوں کو ڈیڑھ سال کا عرصہ دینے کیلئے تیار ہو گی؟ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اتحادی حکومت کو وقت دینے کے لئے آمادہ نہیں ہے اور آنے والے دنوں میں ایسے حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں جس سے نئے الیکشن کرانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ یہ وہ پوائنٹ ہے جسے سیاسی جماعتیں سمجھنے سے قاصر ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ایسا راستہ اختیار کر لیا گیا ہے جو سیدھا گہری کھائی کی طرف جاتا ہے۔ اگر ہم دنیا کے کامیاب جمہوری ممالک کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں وہاں سیاسی استحکام دکھائی دیتا ہے، دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں کہنے کی حد تک تو چار یا پانچ سالہ ٹنیور ہوتا ہے، الیکشن بھی اسی اعتبار سے ہوتے ہیں مگر ایک شخص کو دو ٹنیور تک حکومت کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ہم یہاں دنیا کی تین بڑی جمہوری طاقتوں مثال پیش کر رہے ہیں۔ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے وہاں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کو دو ٹنیور حکومت کا موقع دیا گیا اس سے پہلے من موہن سنگھ کو بھی دو ٹنیور تک حکومت کا موقع ملا۔ آج پاکستان کے مقابلے میں بھارت ترقی کے میدان میں بہت آگے ہے، ایک وقت تھا پاکستانی روپیہ بھارت کے مقابلے میں دوگنا تھا اور یہ محض چند سال پہلے کی بات ہے آج بھارتی روپیہ پاکستان کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ تنزلی کا یہ سفر ہم نے دو دہائیوں میں طے کیا ہے، بنگلہ دیش کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے جہاں جب تک سیاسی دنگا فساد رہا وہ ترقی سے دور رہے مگر جب سیاسی استحکام آیا تو معاشی استحکام بھی آ گیا اور بنگلہ دیش پاکستان سے آگے نکل گیا، چین اور امریکہ کی جمہوریتیں ہمارے سامنے ہیں صرف ڈو نلڈ ٹرمپ کو چھوڑ کر باقی امریکی صدور کو دو دو ٹنیور حکومت کرنے کا موقع ملا اسی طرح چین میں موجودہ صدر طویل عرصے سے حکومت میں ہے۔ سیاسی استحکام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کا موقع میسر ہوتا ہے تو وہ کارکردگی دکھاتا ہے۔ چین اور دیگر ممالک کی ترقی کے پس پردہ حقائق یہ ہیں کہ انہوں نے بیس یا تیس سالہ منصوبہ تشکیل دیا اور پوری قوت کے ساتھ اس پر عمل ہوا۔ ہمیں بھی ایسی ہی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، ملک کے مسائل کو سامنے کر رکھ بیس یا تیس سالہ منصوبہ تشکیل دیا جائے جسے حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی فرق نہ پڑے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی