شہباز شریف کا تذبذب اور معاشی صورتحال

اتحادی جماعتوں نے عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو گرا تو لیامگر حکومت میں آکر خود مخمصے کا شکارنظر آ رہی ہیں اور اہم فیصلے کرنے سے ہچکچا رہی ہیں لیکن چونکہ حکومت کی سربراہی ن لیگ کے پاس ہے اور اہم وزارتوں سمیت زیادہ تر شراکت بھی اسی جماعت کی ہے اسی وجہ سے اس ہچکچاہٹ اور مخمصے کا ذمہ دار بھی اسی جماعت کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف جو شروع میں بڑے پر جوش نظر آ رہے تھے اور پہلے دن نہ صرف سات بجے دفتر پہنچے بلکہ دو چھٹیوں کے خاتمے کا اعلان بھی کر ڈالا اور دوسرے دن کراچی جاتے ہوئے جہاز میں ہی معیشت کے متعلق میٹنگ کر دی ،مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اب ان کا جذبہ ماند پڑ رہا ہے بلکہ اپنا ہر قدم بھی پھونک پھونک کر اٹھا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو عمران خان کی بچھائی ہوئی وہ بارودی سرنگیں ہیںجنہیں ہٹانے کیلئے نہ صرف حوصلہ چاہئے بلکہ ڈیڑھ سال کا وقت بھی درکار ہے۔یہ بارودی سرنگیں پٹرول اور بجلی کی وہ قیمتیں ہیں جوعمران خان نے فروری میں عدم اعتماد کی بو سونگھتے ہوئے بڑھانے کی بجائے الٹا اپنے سیاسی فائدے کی خاطر کم کر دیں جسکا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج حکومت کو روزانہ 150ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑ رہی ہے اور یہ خسارہ 700ارب روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومتی اخراجات 45ارب روپے ماہانہ ہیں۔اب آپ خود سوچئے کہ حکومت کو ملکی اخاجات سے کئی گنا زیادہ صرف سبسڈی کی مد میں خرچ کرنا پڑ رہا ہے ۔اگر یہی صورتحال دو تین ماہ تک جاری رہی تو پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔اب حکومت کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو وہ سبسڈی دینے کی بجائے یہ بوجھ عوام کو منتقل کر کے اپنے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھائے جو اس وقت تیزی سے کم ہو رہے ہیں یا پھر اسمبلیاں تحلیل کر کے انتخابات کی طرف جائے اور یہ فیصلہ نگران حکومت پر چھوڑ دے لیکن شہباز شریف کیلئے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی صورتحال ہے۔ان کو یہ خوف لا حق ہے کہ اگر وہ سبسڈی ختم کریں گے تو ملک میں اور مہنگائی آئے گی اور عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ بڑھے گا جس سے عوام میں ان کی سیاسی ساکھ ختم ہو جائے گی ۔اس کے برعکس اگر وہ ملکی صورتحال کو جو ں کا توں چھوڑ کر الیکشن کی طرف بڑھتے ہیں تو تو عدم اعتماد سے پہلے انہوں نے جو نعرہ لگایا تھا پہلے اصلاحات پھر انتخابات وہ دم توڑ جائے گا، جس سے نہ صرف ان کی سیاسی پوزیشن خراب ہو گی بلکہ عوام میں یہ تاثر پھیل جائے گا کہ یہ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ جہاں تک حکومت کی مدت پوری کرنے کا تعلق ہے ،تو اس بارے میں اپوزیشن منقسم ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے سوا اپوزیشن کی تمام جماعتیں فوری انتخابات کی طرف جانا چاہتی ہیں۔خود ن لیگ میں دو آراء پائی جاتی ہیں مریم نواز اپنے جلسوں میں ببانگ دہل کہہ رہی ہیں کہ ہم عمران خان کا گند کیوں اٹھائیں۔ مولانا فضل الرحمان بھی جلد انتخابات کا اعلان نہ ہونے پر حکومت سے مایوس ہو رہے ہیں۔ دراصل مریم نواز سمیت اتحادی رہنما عمران خان کے آئے روز جلسوں میں اس کی حکومت کے متعلق ہونے والی جارحانہ تنقید سے دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں جس میں وہ ڈالر کی اونچی اڑان اور ملک میں بڑھتی مہنگائی کا ملبہ بھی حکومت پر گرا رہا ہے ۔شہباز شریف کے تذبذب کی بڑی وجہ ان کی ڈیڑھ سال کی مدت پوری نہ ہونے دینا ہے، کیونکہ شنید ہے کہ مقتدر حلقوں نے بھی حکومت کو جلد انتخابات کرانے کا مشورہ دیا ہے۔ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ اگر طاقتور حلقوں نے مجھے مدت پوری کرنے کی یقین دہانی کرائی تو تب میں معاشی اصلاحات کی طرف قدم بڑھاؤں گا۔ حکومت کی ہچکچاہٹ کی ایک وجہ سپریم کورٹ کا اچانک بدلتا ہوا رویہ بھی ہے ۔گذشتہ ہفتے صدر مملکت کی طرف سے 63-Aکے متعلق بھیجے گئے ریفرنس کا جو فیصلہ کیا گیا ہے ،تو اس سے بعض آئینی ماہرین سمجھتے ہیں کہ عدلیہ نے اسکی تشریح کی بجائے ترمیم ہی کر دی ہے ، پھر اس کے بعد اعلی عدلیہ کا اداروں میں حکومتی مداخلت کے تاثر پر فوری سوموٹو نوٹس لینا حکومت کیلئے حیران کن اقدام ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی جلسوں میں تند و تیز تقریروں سے اعلی عدلیہ سمیت بعض ادارے شدید دباؤ میں آ گئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اور مولانا فضل ا لرحمان نے سابق ڈائیریکٹر ایف آئی اے بشیر میمن ،سابق جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت صدیقی اور فارن فنڈنگ کیس پر بھی سوموٹو نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔شہباز شریف کو عوامی دباؤ سے نکل کر جرآت مندانہ اقدامات اٹھانے چاہئیں، کیونکہ اگر انہوں نے معاشی اصلاحات کی بجائے ملک کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تو انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اگر انکو اقتدار مل گیا تو اس وقت اور بھی پیچیدہ صورتحال ہو گی اور ملک سنبھالنا مشکل ہو جائے گا ، اس لئے حکومت کو نہ صرف مدت پوری کرنی چاہئے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی ٹھیک کرنا چاہئے ،اگر شروع میں مہنگائی کی صورت میں عوامی غصہ آئے گا ،تو کچھ عرصہ بعد معیشت ٹھیک ہونے پر یہی عوام اس کے ساتھ بھی ہو گی، تب عمران خان کی سیاست اپنی موت آپ مر جا ئے گی۔ویسے بھی اسکی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ شکست کی صورت میں انتخابات کو شفاف مان لے گا اور انتشار سے باز آجائے گا۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں