بیٹے کے انتظار میں بھٹکتی ماں

ویب ڈیسک:اُس کی عمر ستر سال تھی ۔ وہ ساحلِ سمندر پر چادر بچھا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے قریب ایک چائے دانی تھی جس سے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد چائے کے گھونٹ لے رہی تھی۔ وہ کبھی سورج کی طرف دیکھتی جو پورا دن روشنی بکھیرنے کے بعد غروب ہونے والا تھا اس کی شعائیں اُفق میں سمٹ رہی تھیں۔ وہ سطح سمندر پر اُس کی کرنوں کی جھلملاہٹ کا نظارہ کر رہی تھی جس نے اپنے حسن و جمال سے سمندر کو چار چاند لگا دیے تھے۔
سمندر میں موجیں اٹھکیلیاں کر رہی تھیں۔ اس حسین نظارے کو دیکھ کر وہ اس خیال میں غرق تھی کہ نجانے ٹھاٹھیں مارتے اس سمندر نے کتنی دلخراش داستانیں اور کتنے ناقابل فراموش واقعات کو اپنے سینے میں دفن کر رکھا ہو گا۔ اُس کی اپنی زندگی بھی کئی پہلوئوں سے سمندر سے مشابہ لگ رہی تھی۔
وہ ساحل سمندر پر بیٹھی کسی سوچ میں غرق تھی۔ اُس کے قریب ہی ایک فیملی بھی تھی جو زندگی کے روزمرہ کے معمولات سے وقتی طور پر نجات پانے کے لیے سمندر کے کنارے سیر کے لیے آئی تھی۔ خاندان کے افراد مختلف اُمور پر گفتگو کر رہے تھے۔ چائے اور قہوہ کا دور چل رہا تھا ۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد اُن کے گھر جانے کا وقت آیا تو گھڑی رات کا ایک بجا رہی تھی۔ اس وقت بھی ستر سالہ بوڑھی عورت، اکیلی بیٹھی اور گاہے گاہے چائے کی چسکی لے رہی تھی ۔ اس کی نگاہیں سمندر ہی کی طرف لگی ہوئی تھیں، دیکھنے والا اس کی غور و فکر سے بھرپور نگاہیں آسانی سے پڑھ سکتا تھا۔
سیر کے لیے آئے ہوئے خاندان میں ایک شخص کی نگاہ بار بار اُس بوڑھی عورت پر پڑ رہی تھی۔ وہ شاید اُس عمر رسیدہ خاتون کی کیفیت کو بھانپ رہا تھا۔ جب وہ فیملی چلنے کے لیے تیار ہوئی تو اُس سے رہا نہ گیا ، اُس نے قریب آ کر پوچھا :
خالہ جان! کیا میں آپ کو آپ کے گھر پہنچانے کی سعادت حاصل کر سکتا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ تن تنہا بیٹھی ہیں ، کوئی آپ کے پاس نہیں ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آپ کی یہ خدمت کر دوں؟
عمر رسیدہ خاتون: نہیں بیٹا، اللہ آپ کو جزائے خیر دے! میں اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہوں ، وہ آتا ہی ہو گا ۔ شاید راستے میں اسے تاخیر ہو گئی ہے۔
اجنبی: خالہ جان! اب رات کے ڈیڑھ بجے کا وقت ہے۔ ساحلِ سمندر سکوت کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔
عمر رسیدہ خاتون: ہاں، بات تو ٹھیک ہے۔ مگر میں اپنے بیٹے کے اتنظار کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہوں؟ اچھا بیٹا! یہ کاغذ دیکھنا، میرا بیٹا مجھے سمندر کے کنارے چھوڑ کر جاتے وقت یہ رقعہ دے گیا تھا۔ ذرا پڑھنا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔
اُس نے رقعہ کھولا ۔ اس کا مضمون یہ تھا : ’’یہ رقعہ پڑھنے والے سے درخواست ہے کہ اِس خاتون کو اولڈ ہائوس (Old People House) پہنچا دے۔‘‘
خط کا مضمون پڑھنے والے شخص کے خاندان کے افراد چیخ اُٹھے۔ انہیں اُس بڑھیا پر بڑا ترس آیا جس ماں نے بیٹے کو جنم دیا۔ دو سال دودھ پلایا ، اس کے چین و سکون کے لیے رات کی نیندیں اپنے اوپر حرام کر لیں ، لیکن اُس کا صلہ اُسے کیا ملا ؟ اُس نافرمان بیٹے نے ماں کو زندگی کے آخری ایام میںساحلِ سمندر پر لے جا کر یوں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ۔ جس طرح سمندر کی موجیں اٹھکیلیاں کرتے ہوئے ساحل پر سمندر کا جھاگ چھوڑ جاتی ہیں۔