”پوتن نے کچی گولیاں نہیں کھیلی”

یوکرین پر روسی حملے کے بعد جس طرح سے امریکہ نے روس پر معاشی پابندیوں کی یلغار کی اور اسے بین الاقوامی رقوم کی ادائیگیوں کے سوِفٹ (SWIFT) سسٹم سے نکالنے کے ساتھ تمام کئی امریکی اور بین الاقوامی کمپنیوں نے روس میں اپنے پراڈکٹس بیچنے کا بائیکاٹ کیا اور کئی کمپنیوں نے اپنے آپریشن بند کردیئے جس کے بعد یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ روس کے شاپنگ مال خالی نظر آنے لگے۔ گویا روسی صرف بین الاقوامی اشیا کا ہی استعمال کرتے ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ روس معاشی طور پر مکمل مفلوج ہو جائے گا اور اسے بالآخر یوکرین سے جنگ بندی کرنی پڑے گی کیونکہ جب ملک کے اندر اسے بغاوت کا سامنا ہوگا تو پھر صدر ولادیمیر پوتن کے لئے ملک سے باہر جنگ جاری رکھنا زیادہ آسان نا ہوگا۔ مگر کیا وجہ بنی کہ اتنی شدید معاشی پابندیاں بھی روس کو کمزور نا کرسکی بلکہ اس کے برعکس روسی کرنسی روبل جو کبھی پاکستانی روپے کے برابر تھی وہ اب بھارتی روپے سے بھی زیادہ مستحکم دکھائی دے رہی ہے ؟روس کا یوکرین پر حملے کے بعد مغرب اور امریکہ نے روس کی معیشت سے متعلق جو اندازے لگائے تھے وہ تمام غلط نکلے۔ انہوں نے شاید یہ سوچا کہ سخت ترین پابندیوں سے روس کا دیوالیہ ہو جائے گا جس سے وہ مزید ملک کے اندر پیدا ہونے والے دبائو کو برداشت نہیں کر سکے گا کیونکہ پوتن کے مخالف سیاستدان الیگزئی نیولنی جیسے سیاستدان پہلے ہی روس میں مقبولیت حاصل کر چکے تھے جو عوام کو ایک عرصے سے یہ باور کرانے میں لگے ہوئے تھے کہ صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے لئے روسی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خفیہ محلات بنائے ہیں۔ جرمنی برطانیہ اور فرانس نے بھی بڑھ چڑھ کر نیولنی کی حمایت کی تاکہ روس میں اسے مزید عوامی پذیرائی مل سکے اور اس حد تک بھی گئے کہ نیولنی پر قاتلانہ حملے کی کوشش پر بھی ان دونوں ممالک نے صدر پوتن پر الزام لگایا۔
جب روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کیا گیا تو یقینا صدر پوتن نے پہلے ہی نا صرف عسکری و سفارتی ردِ عمل پر کیلکولیشن کر رکھی تھی بلکہ معاشی سطح پر اس نے پہلے ہی ایک جامع منصوبہ مرتب کیا تھا کہ کس طرح سے امریکی پابندیوں سے نمٹا جائے گا۔ حیران کن طور پر جب سے اس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے شدید بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود توانائی کے شعبے میں روس اب پہلے سے زیادہ زرِ مبادلہ یورپ سے اکھٹا کر رہا ہے۔ معیشت دان اس کی وجہ بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ کئی مغربی ممالک کی روس میں پیدا ہونے والی گیس پر انحصاری ہے جس میں جرمنی جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ امریکہ نے مغربی ممالک کی اس ضرورت کو ہمیشہ سے ہی نظر انداز کیا۔ نورڈ اسٹریم ون اور ٹو جیسے منصوبے اس کی واضح مثال ہیں کہ کس طرح اپنے توانائی کے وسائل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پوتن نے کئی یورپین ممالک کو روس پر انحصار کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے بر عکس امریکہ کے پاس بھی توانائی کے کئی ذرائع موجود ہیں مگر نا ہی اس نے یورپ کو بیچنے میں زیادہ دلچسپی دکھائی اور نا ہی اس کی قیمتیں روسی گیس سے کم تھی۔ لہذا اب روس چونکہ ڈالروں میں تجارت نہیں کر سکتا مگر اس نے اپنے خریداروں کو مارکیٹ سے روسی روبل خرید کر اس کے ذریعے تجارت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ امریکہ کی دوسری سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ تھی کہ اس نے روس پر پابندیاں لگانے سے قبل ایران یا وینزویلا جیسے ممالک کے ساتھ کوئی حتمی معاہدہ نا کیا جس کی وجہ سے مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگی۔ جبکہ پوتن نے اس کا حل یہ نکالا کہ تیل کے بڑے خریدار ممالک جیسے بھارت اور چین کو30فیصد رعایت سے تیل دینے کا اعلان کیا۔ اب بھلا بھارت اور کئی اور
ممالک کیوں روس سے مقامی کرنسی کے ذریعے سستے داموں میں تیل خریدنے پر گلف ممالک سے مہنگے داموں تیل خریدنے کو ترجیح دیتے ؟یوکرین کو گندم کی پیداوار میں مرکزی حیثیت حاصل ہے جو پورے یورپ بشمول برطانیہ کی بھی خوراک کی ضروریات کو پورا کرتا تھا جبکہ دوسرے نمبر پر روس سب سے زیادہ گندم پیدا کرتا ہے۔ یوکرین پر حملے کے بعد گندم کی پیداوار میں روس پہلے نمبر پر آگیا مگر یورپ کے لئے سب سے بڑی مشکلات یہ تھی کہ وہ روس سے کیسے گندم خریدتے کیونکہ انکی تو اصل جنگ ہی روس سے تھی۔ پوتن نے یہاں بھی امریکی بلاک کو پریشانی میں مبتلا کیا جب اس نے دنیا کے تمام ممالک بشمول پاکستان کو سستے داموں گندم بیچنے کا اعلان کیا۔ روس میں اگرچہ مہنگائی میں10فیصد اضافہ تو ہوا مگر اس کی معیشت نے کھل کر امریکی پابندیوں کا مقابلہ کیا جو اس وقت اس کی کرنسی کی قدر میں اضافے کی صورت میں نظر آ بھی رہا ہے۔ ہنگری پولینڈ اور کئی اور یورپین ممالک جن کی معیشت مکمل طور پر روسی توانائی پر منحصر ہے ان کے پاس کوئی اور راستہ نا تھا اور نا ہی امریکہ نے ان کے لئے کوئی مارشل پلان طرز کا متبادل راستہ تیار کر رکھا تھا۔ دوسری جانب چین بھی روس کو مالی تعاون کرتا رہا جس سے پوتن کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی۔ ان تمام باتوں سے یہ اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور یورپ نے روس سے نمٹنے کے لئے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ بوکھلاہٹ میں لیئے گئے فیصلے اب ان کے اپنے ہی گلے پڑ رہے ہیں۔ پوتن اب اسقدر پر اعتماد ہوچکا ہے کہ وہ فن لینڈ پر بھی حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے کیونکہ اسے بھی اب معلوم ہوچکا ہے کہ امریکی پابندیاں اس کی معیشت کو ہلا نہیں سکی کیونکہ اس کا زور صرف پاکستان اور سری لنکا جیسے کمزور ممالک میں پارلیمنٹیرینز کو خرید کر وہاں تختہ ڈھڑن کرنے پر ہی چل سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں امریکی سافٹ اور ہارڈ پاور پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے کیونکہ پوتن اب یہاں نہیں رکے گا بلکہ اس کی توسیع پسندانہ سوچ مزید پروان چڑھے گی۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب