لگے آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

ایک بھارتی فلم میں ایک مشہور کامیڈین کا یہ جملہ یاد آرہا ہے جب اسے ہر کوئی آکر ٹھوک دیتا ہے تو وہ کہتا ہے ”سالو میں کوئی مندر کا گھنٹہ ہوں کہ جس کا دل چاہے آکر بجا دیتا ہے”۔ اب تک تو ہمارے ہاں کی کچھ مشہور ٹک ٹاکرز خواتین نے بھی ہمارے کچھ اداروں کو ”مندر کا گھنٹہ” ہی سمجھ کر جو سلوک چاہا روا رکھا ‘ ایک خاتون ٹک ٹاکر حریم شاہ کی وہ تصویریں اور ویڈیوز یقینا آپ کو یاد ہوں گی جب اس نے ”اونچے ایوانوں” کی اہم شخصیات والی نشستوں تک رسائی حاصل کرکے ان کرسیوں پر بیٹھ کر ویڈیوز بنوائیں ‘ جبکہ ان ویڈیوز سے پہلے ان اہم کمروں کو جوتے کی نوک سے کھولتے ہوئے بھی دیکھا گیا ‘ اب اتنی”سہولتیں” اسے کن لوگوں کے حکم پر اور کن لوگوں نے مہیا کیں ‘ موصوفہ نے اس زمانے (زمانہ قریب کا صیغہ استعمال کیا جاسکتا ہے ) کے بعض انتہائی اہم سیاسی کرداروں کے ساتھ تعلق کی تصویریں بھی بڑے فخر سے جاری کیں’ اور اپنی کچھ حرکتوں کی وجہ سے عدالتوں میں پیش ہو کر ضمانتی مچلکے بھی جمع کروانا پڑے ‘ اب بھی وہ کبھی کبھی اپنی ویڈیوز اور تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال کراپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں یعنی
اپنے ہونے کا پتہ دیتے ہیں
اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں
ایک ا ور ٹک ٹاکر کا وہ واقعہ بھی آپ کویاد ہو گا جب غالباً یوم آزادی کے موقع پر مینار پاکستان پر شوٹنگ کے دوران ”عوام” نے اس کا حشر نشر کر دیا تھا اور بات ”بہت دور تک” چلی گئی تھی ‘ یعنی بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی والی صورتحال بن گئی تھی ‘ معاملہ پولیس تک جا پہنچا تھا ‘ جبکہ تفتیش کے دوران بڑے ہوشرباء انکشافات ہوئے ‘ مگر حتمی نتیجہ کیا نکلا یہ واضح نہ ہو سکا ‘ ویسے اس قسم کے معاملات کے حتمی نتائج اکثر اسی قسم کے ہوتے ہیں یعنی ٹائیں ٹائیں فش ‘ معاملہ یا تو دبا دیا جاتا ہے یا پھر میڈیا مزید اہم معاملات کو رپورٹ کرنے لگ جاتی ہے ‘ اب اسی قسم کا ایک اور واقعہ ہوا ہے اور ایک ٹک ٹاکر ماڈل ڈولی کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جو ماڈلنگ کے لئے جنگل میں آگ لگاے یا لگوانے میں مبینہ طور پر ملوث قرار دینے کے بعد اب ضمانت پر ہیں ‘ انہیں ویڈیو میں آگ لگے درختوں کے پیش منظر میں ماڈلنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے ‘ اس سے پہلے ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دو نوجوان کسی جگہ جنگل میں آگ لگا کر وہاں سے بھاگتے دیکھے جا سکتے ہیں ‘ اب ان دونوں واقعات کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا پھر الگ الگ جگہوں پر یہ ”وارداتیں” ہوئی ہیں ‘ کیونکہ جن نوجوانوں کو جنگل میں آگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اس کے بارے میں ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والے کا دعویٰ ہے کہ یہ مارگلہ کی پہاڑیوں کا علاقہ ہے ‘ جبکہ ٹک ٹاکر ڈولی نے پہلے دعویٰ کیا کہ جہاں ان کی ویڈیو والے علاقے میں آگ نظر آتی ہے وہ خیبر پختونخوا کا علاقہ ہے اور آگ پہلے سے بھڑکی ہوئی تھی ‘ بعد میں جو بیان انہوں نے دیا اس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ موٹروے کے کنارے کوئی علاقہ ہے جہاں آگ لگی ہوئی تھی اور اس نے یا اس کی ٹیم نے یہ حرکت نہیں کی ‘ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ فلاں جگہ پر آگ لگی ہوئی ہے اور وہ آناً فاناً شوٹنگ کے لئے پہنچ گئی؟ اب اس حوالے سے ”مقدمہ بازی” سے بچنے کے لئے اس کا توڑ بھی برآمد کر لیا گیا ہے یعنی ایک تازہ اطلاع کے مطابق جو سوشل میڈیا پر اسی واقعے کے ساتھ نتھی کی جا سکتی ہے اس میں ایک عام شہری کو اس بیان کے ساتھ سامنے لگایا گیا ہے کہ یہ موٹروے کے قریب کا ایک گائوں ہے جس میں وہ خود بھی رہائش پذیر ہیں اور اس علاقے میں اکثر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ‘ چلو جی چھٹی ہوئی ‘ یعنی ایسے واقعات کے لئے وجہ جواز تلاش کرنے میں بھی کوئی مشکل درپیش نہیں ہوئی ‘ تاہم وہ جو دو نوجوانوں کو پٹرول چھڑک کر جنگل میں آگ لگاتے دیکھا گیا ہے وہ کونسا علاقہ ہے اور جنگل میں آگ لگانے کا مقصد کیا تھا ویڈیو میں آگ لگانے والوں کو آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے ‘ مگر تلاش کون کرے گا؟ جبکہ صورتحال بقول راحت اندوری کچھ یوں ہے کہ
لگے گی آگ تو آئیں گے گھرکئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
مسئلہ کسی ٹک ٹاکر کی ماڈلنگ کا نہیں بلکہ ضمیر کی اس خلش کا ہے جو اب رفتہ رفتہ ہمارے ہاں مفقود ہوتے ہوتے معدوم ہوتی جارہی ہے ‘ اب لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ان کی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت سے قومی وسائل کا کیا حشر ہو رہا ہے ‘ اب تک توجنگلات کی تباہی و بربادی مبینہ طور پر صرف ان ٹھیکیداروں اور محکمہ جنگلات کے ذمہ داران سے لیکر ان جنگلات کی دیکھ بھال پر مامور افراد پر عاید کی جاتی تھی جو ملی بھگت سے جنگلات کے اس بیش بہا خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوتے تھے ‘ یعنی محکمہ والے اگر دس ‘ بیس یا پچاس درخت کاٹنے کا پرمٹ جاری کرتے تھے تو ٹھیکیدار پانچ سو درخت کاٹ کر نہ صرف خود نہال ہوجاتے بلکہ اپنے”ساتھیوں” کو بھی ”موگیمبو خوش ہوا” کی تفسیر بنا دیتے تھے ‘ اور ان وارداتوں پر ”مٹی پائو” کے لئے جنگل کے متعلقہ حصوں میں آگ بھی لگا دیتے تاکہ ان کی پردہ داری برقرار رہے گزشتہ 72سالوں سے انہی حرکتوں کی وجہ سے آج ہم ماحولیات کی بربادی کا نظارہ کر رہے ہیں ‘ جنگلی حیات کی بربادی ‘ اہم جنگلی جانوروں اور پرندوں کی افزائش ختم ہونے ‘ زمین کا کٹائو رکنے کی وجہ سے سیلابوں کی آمد ‘ موسموں کی غارت گری کی وجہ سے بارشوں اور برف باری پر منفی اثرات مرتب ہونے وغیرہ وغیرہ (تفصیل بہت طویل ہے) کی جہ سے جو صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے وہ چشم کشا ہے ‘ عالمی قوانین کے مطابق ایک درخت کاٹنے کے بعد کم از کم سولہ پودے لگانے سے ہی صورتحال قدرتی قوانین کے مطابق برقرار رہ سکتی ہے مگر ہم تو الٹا آگ لگا کر مزید درختوں کو جلا کر راکھ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ بارشیں نہیں ہو رہیں ‘ اجناس کے لئے درآمدات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے جس پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے ‘ ایک زرعی ملک کا حشر ہم نے کیا کر دیا ہے اس پر سوچنے کے برعکس اب ٹک ٹاکرز نے بھی صرف شوٹنگ کی غرض سے جنگلات کا بلیدان شروع کر دیا ہے ۔
سرد موسم ‘ دھوپ ‘ بارش ‘ بجلیاں
اب ہمیں سب کچھ گوارا ہو گیا

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن