قبلہ اول کی پکار

حدیث میں آتا ہے کہ تین مساجد کی طرف سفر کرنا بڑے سعادت کی بات ہے۔ ان تینوں مساجد میں مسجد حرام (بیت اللہ)اور مسجد نبوی کے علاوہ مسجد اقصی بھی شامل ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں ہمارے نبی حضور ۖ نے معراج کے موقع پرتما م انبیا کی امامت فرمائی۔ یہی وہ مسجد ہے کہ جہاں سورہ بنی اسرائیل یا سورہ اسرا کے مطابق اللہ تعالی نے اپنے نبی کو رات کی تاریکی میں مسجد حرام سے اٹھاکر اسی مسجد سے ہوتے ہوئے ساتویں آسمان پر اپنے دیدار مبارک کے لئے بلایا۔ لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا مگر مسلمان اپنے قبلہ اول کو یہودیوں کے پنجہ استبداد سے واگزار نہیں کراسکے۔تاریخی حقایق بتا تے ہیں کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں جب بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کرکے ہیکل سلیمانی کو مسمار کیا تو شہر کو تہہ وبالا کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں یہودیوں کو قتل بھی کردیا اور کئی لاکھ کوقیدی بناکر اپنے ساتھ بابل لے گئے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے زمانے میں یہ لوگ دوبارہ واپس فلسطین آئے اور معبد ثانی تعمیر کیا ۔ لیکن سن ستر میں رومن جنرل ٹائی سن نے یروشلم پر حملہ کرکے دوبارہ اسے منہدم کردیا اور یہودیوں کوپھر سے فلسطین سے نکال دیا گیا جس کے بعد یہ لوگ مختلف ملکوں میں منتشر ہوگئے، کچھ روس، ہندوستان، مصر اور کچھ یورپ چلے گئے ۔ اسی دور کو یہودیوں کا دور انتشار کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت یروشلم مسلمانوں کے حوالے کردیا تو انہوں نے اسے کھلا شہر (open city) قراردے دیا کہ یہاں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب آسکتے ہیں۔ البتہ معاہدے میں یہ شرط لگائی گئی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے یا جائیدادیں خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بالآخر انیس سو سترہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی ملی بھگت سے برطانوی وزیر بالفور کے ذریعے بالفور ڈیکلیریشن منظور کروایا گیا جس میں یہودیوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ فلسطین میں آکر آباد بھی ہوسکتے ہیں اور جائیدادیں بھی خرید سکتے ہیں۔ اور یوں اس ڈیکلیریشن کے اکتیس سال بعد اسرائیل کی ریاست وجود میں آگئی۔ جنگ عظیم دوم کے بعدہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں پر ایک بار پھر ظلم کی انتہا ہوگئی۔ اسکے حکم پر پورے مشرقی یورپ سے یہودیوں کو چن چن کر کنسنٹریشن کیمپس میں لایا گیا اور انکو اجتماعی طور پر قتل کیا گیا ۔ پولینڈ کے شہر کریکو میں موجود وہ کنسنٹریشن کیمپس ہٹلر کے ہاتھوں ہوئے ان مظالم کی کہانیاں خود سناتی ہیں جہاں پر انہوں نے لاکھوں نہتے یہودیوں کو گیس کی چیمبروں میں زہریلی گیس چھوڑکرہلاک کرڈالا تھا۔ایک دورے کے دوران ہمیں وہ قالین بھی دکھائے گئے جو ہٹلر نے قید یہودیوں کے سروں کے بال نوچ کر بنائے تھے۔ اسی کیمپ میں ہم نے گیس چیمبرز کے باہر چھوٹے چھوٹے بچوں کے جوتے بھی دیکھے جنہیں ان چیمبرز میں زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کردیا گیا تھا۔ بعد میں ہمیں اس پھانسی گھاٹ کا مشاہدہ بھی کروایا گیا جہاں اسی کیمپ کے انچارج جیلر کو بعد میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔اب تک عرب اسرائیل جنگوں کے کئی دور گزرچکے ہیں اور آئے روز ہم مسجد اقصی اور نہتے فلسطینیوںپر یہودی فوج کے حملوں کی خبریں ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھتے رہتے ہیں۔مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے۔ اندریں حالات ایسا نظر آتا ہے کہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب مسجد اقصی شہید کردی جائیگی اور اسکے نتیجے میں مشرق وسط میں جو طوفان اٹھے گا وہ دنیا کے لئے عموما اور یہودیوں کے لئے خصوصا خطرنا ک نتائج لے کر آئیگا۔پچھلے دنوں اسلام آباد میں فیصل مسجد کے خطیب ڈاکٹر ضیاا لرحمن کی دعوت پران دنوں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے شیخ حزیفہ نے فلسطین کے موجودہ حالات پر مسجد طوبی میں خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پرحالات انتہائی سنگین ہیں لیکن مسلمانان فلسطین کی جرات و بہادری کو سلام پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ یہودی فوجیوں کے مظالم کے خلاف قبلہ اول کی دفاع میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند یوں کھڑے ہیں کہ انکی پایہ ثبات میں ایک لمحے کے لئے بھی لغزش نہیں آرہی۔ انہوں نے اس جراتمند خاتون کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا جنکی دس میں سے دو بیٹے اب تک جام شہادت نوش کر بیٹھے ہیں اور باقی دو یہودیوں کے زیرحراست ہیں لیکن اس بہادر ماں کے جوش و جزبے کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے باقی بیٹوں کو بھی قبلہ اول کی پکار پر قربان کرکے مسلمان ہونے کا حق ادا کرنا چاہتی ہیں۔انہوں نے حال ہی میں ایک خاتون صحافی کی قتل کا حوالہ دیتے ہوئے مہذب دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑتے ہوئے سوال اٹھایا کہ وہ فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پرخاموش تماشائی کیوں بن بیٹھے ہیں۔ فلسطین کے اندر یہی حالات مسلمانان عالم کے لئے واقعی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ شیخ حزیفہ نے مسلمانوں پر زور دیا کہ اگر وہ فلسطین کے مسلمانو ں کی مالی، جانی اور حتی کہ اخلاقی مدد سے بھی قاصر ہیں تو کم از کم قبلہ اول کی دفاع میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے فلسطینی بہن بھائیوں کواپنی دعاوں میں ضرور یاد رکھیں۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ