قبل از وقت انتخابات کیلئے دبائو

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے بالاخراسلام آباد کی طرف دو دن کے نوٹس پر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے ان سطور کی اشاعت تک لانگ مارچ میں بمشکل ایک دن رہ جائے گا۔کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف کے قائد نے اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کی تاریخ دینے کا مطالبہ کیا انہوں نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نیوٹرل ہیں تو نیوٹرل رہنا۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ کہہ کر کہ قوم جس کو لانا چاہتی ہے لائے مگر کوئی دوسرا ان کو مسلط نہ کرے بظاہر شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخاب اور اس کے نتائج کو تسلیم کرنے کا پیشگی اعلان ہے ۔دریں اثناء وزیر داخلہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اتحادی فیصلہ کریں گے لانگ مارچ کو اسلام آباد آنے دینا ہے یا نہیں۔ وزیر داخلہ قبل ازیں بھی طاقت کے استعمال کے لئے اجازت نہ ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں جس کا کوئی اور مطلب لیا جاتا ہے انہوں نے پرامن احتجاج کو نہ روکنے کا اعلان کیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے قائد کی جانب سے بھی مارچ کے مکمل طور پر پرامن ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب اپنے مطالبات کے لئے کسی سیاسی جماعت نے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہو۔اس سے قبل بھی متعدد لانگ مارچ اور دھرنے ہو چکے ہیں، تاہم کوئی بھی لانگ مارچ اور دھرنا بظاہر اپنے مقاصد کے مکمل حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ احتجاج’ جلسوں’ دھرنوں اور لانگ مارچ سے بھری پڑی ہے۔ حالیہ عشروں میں اس میں نہ صرف بہت حد تک اضافہ بھی ہوا بلکہ یہ غیر معمولی حد تک طویل بھی ہو جاتے ہیں۔دریں اثناء جمعیت علمائے اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک کی اس مشکل میں سیاستدانوں اور اداروں کو ایک پیج پر مشترکہ اور متفقہ کردار ادا کرنا ہوگا، کوئی اپنی بالادستی یا طاقت ور ہونے کا احساس نہ دلائے، جمہوریت کی کمزوری کا احساس نہ دلایا جائے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ملک سب کا ہے اگر ملک ڈوبتا ہے تو فوج کا بھی ڈوبتا ہے، بیوروکریسی کا بھی ڈوبتا ہے۔سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تک اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدارہونے کا سنجیدہ تاثرپایا جاتا تھا لیکن نئی حکومت کے قیام کے بعد اس حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے جے یو آئی کے قائد کے محولہ بیان سے اس امر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتحادی جماعتیںاب اس حوالے سے کیا سوچ رکھتی ہیں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی پشت پناہ ہے ساتھ ہی شہباز شریف حکومت ڈیڑھ سال کی گارنٹی بھی انہی قوتوں سے طلب کر رہی ہے صورتحال کی غیر یقینی کا یہ عالم ہے کہ 29مئی کو اسمبلیاں ٹوٹنے کی افواہیں تک زیر گردش ہیں جس کی تردید کی گئی ہے ۔ان تمام عوامل کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار ہونے کا عمل مشکوک ہے جبکہ اس کے منقسم ہونے کا بھی تاثر پایا جاتا ہے امر واقع یہ ہے کہ وطن عزیز کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی چھاپ اور اس کی مدد سیاسی ضرورت نہ بھی ہوتو نفسیاتی طور پر اس کی حمایت کے تاثر کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ ہر حکومت اسٹیبلشمنٹ کا اپنے ساتھ کھڑا ہونے کو حق گردانتی ہے مشکل امر یہ ہے کہ بیساکھی اور سہارے کے بغیر انتخاب لڑنے اور حکومت چلانے کی نوبت جب تک نہیں آتی تب تک سیاست اور حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بھنور سے نہیں نکل سکے گی اب یہ ایک ایسا موقع آچکا ہے کہ سیاست سے کنارہ کشی کی خواہشمند اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کا احترام کیا جائے جبکہ اسٹیبلشمنٹ بھی عملی طور پر اپنے غیر جانبدار ہونے کا ثبوت دے۔ملکی سیاست میں سلیکٹیڈ اور سلیکٹرز کا کھیل اب ختم ہو جانا چاہئے اور یکسوئی کے ساتھ آئین اور دستور کے مطابق ذمہ داریاں پوری کرنے پرتوجہ مرکوز کی جائیں تو یہ ملک و قوم کے حق میں بہتر ہو گاجہاں تک قبل از وقت انتخابات کا سوال ہے یہ صرف تحریک انصاف ہی کا مطالبہ نہیں بلکہ مسلم لیگ نون کا مضبوط اور متحرک دھڑا بھی اس کا حامی ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو تو لانگ مارچ کا اعلان قدرے جلد بازی کا فیصلہ نظر آتا ہے ۔تحریک انصاف کو لانگ مارچ کی کال کو آخری کارڈ کے طور پر دبائو کے لئے اپنے پاس محفوظ رکھنے کا حربہ زیادہ موثر ہوتابہرحال تحریک انصاف گزشتہ چالیس دنوں سے لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف تھی اور دو دن کے نوٹس پر اب اس کا اعلان ہو چکا ہے دیکھا جائے تو 2014کے 126دن دھرنا کے برعکس تازہ فیصلے پر عملدرآمدقدرے مشکل نظر آتا ہے ابھی اس امر کا فیصلہ نہیں ہوا کہ لانگ مارچ اسلام آباد میں دھرنے پرمنتج ہو گی یا پھر اس کا اختتام کا اعلان کیا جائے گا غالب گمان یہ ہے کہ دھرنادیا جائے گا۔حکومت کی جانب سے ابھی اس حوالے سے لائحہ عمل واضح نہیں ممکنہ طور پر مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی اور راستے میں اسے روکنے کا فیصلہ کیا جائے تو صورتحال تصادم کی طرف جائے گی لیکن یہ حکومت کی بجائے تحریک انصاف کے حق میں جائے گابناء بریں مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد کے کسی ایک علاقے تک محدود کرنے کا امکان زیادہ ہے اس حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے کہ اس احتجاج کا حشر بھی 2014 کے دھرنے کی طرح نہ ہو ۔سیاسی عوامل سے قطع نظر اب دیگر حالات بھی پہلے کی طرح نہیںایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دھرنے کے اخراجات کہا ںسے پورے ہونگے ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے ایک جلسے میں سسٹم اور لائٹ لگانے کے 65لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے جبکہ ویڈیو سٹیلائٹ کنکشن اور سوشل میڈیا کا خرچہ تین لاکھ روپے تک آتا ہے کرسیوں کا کرایہ بھی روزانہ تین لاکھ روپے لگایا جائے تو یہ 72لاکھ روپے روزانہ کا تخمینہ بنتا ہے جبکہ کارکنوں کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کے ا خراجات علاوہ ہوں گے ۔بہرحال کہا جاتا ہے کہ یہ اخراجات باہمی چندے سے پورے کئے جاتے ہیں جس سے قطع نظرضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو مزید بحران سے بچانے کے لئے سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے اور خاص طور پر میثاق معیشت ہونا چاہئے انتخابات چاہے قبل از وقت ہوں یا مقررہ وقت پر سیاسی جماعتیں اگر مکمل طور پر اپنے بل بوتے پر انتخاب لڑنے اور نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا میثاق کریں تو یہ سبھی کے حق میں بہتر اور ملک و قوم کے عین مفاد میں ہو گا۔

مزید پڑھیں:  صحت کارڈ سے علاج میں وسعت