شیریں مزاری کو عدالت کے دائرہ اختیار سے غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا

اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ شیریں مزاری، پٹیشنر ایمان مزاری اور فواد چودھری سمیت دیگر وکلاء جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کی تشکیل کے لیے وقت دیا جائے عدالت نے کہا کہ علی وزیر کئی ماہ سے قید میں ہیں۔
یہ وفاق، صوبائی حکومتوں اور پارلے منٹ کا کام ہے حکومت میں جب یہ ہوں تو کام نہیں کرتے، اپوزیشن میں ہوں تو کیسز عدالتوں میں لے آتے ہیں اس طرح کی باتوں سے جمہوریت غیر فعال ہو جاتی ہے تمام ادارے کام کریں تو ایسی پٹیشنز عدالتوں میں نہ آئیں، فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ رات کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی جب ولید اقبال کے گھر پر گئے اس عدالت کے احکامات پنجاب کی اتھارٹیز کو بھی بھجوائے گئے ہیں معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو بھجوایا گیا ہے.
عدالت نے اس موقع پر کہا کہ سیاسی لڑائیوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے حلقہ کے عوام کو جوابدہ ہیں اگر سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی تو عدالت کیا کرے؟ یہ حکومت کا کام ہے یہ بھی سوشل میڈیا پر طعنے ہی دیتے ہیں ماضی میں جو کچھ ہوا، جبری طور پر گمشدہ ہونے والے آج تک بازیاب کیوں نہیں ہوئے؟ عدالت فیصلہ دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا سب نے مل کر اپنا اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہے اب دیکھیں شیریں مزاری کو اس عدالت کے دائرہ اختیار سے غیر قانونی طور پر اٹھایا گیایہ کورٹ یہی ججمنٹ دے سکتی ہے نا کہ ان کو غیر قانونی طور پر اٹھایا گیاپہلے حکومتی عہدیدار بھی کام کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر طعنے دیتے رہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہیشیریں مزاری واحد رکن قومی اسمبلی نہیں جن کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ حکومت بیس بیس کلو ہیروئن ڈال کر کیس بناتی رہی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ لوگ عدالت آتے ہیں کہ کمیشن بنایا جائے یہ اختیار وفاقی حکومت کا ہے اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو گا ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ مجھے دھمکیاں دی گئی ہیں مگر ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں.

مزید پڑھیں:  ایرانی صدر ابراہیم رئیسی آج لاہور اور کراچی کا دورہ کرینگے

جس پر عدالت نے کہا کہ آپ پسے ہوئے طبقوں کے کیسز عدالت لاتی ہیں بلوچ سٹوڈنٹس کی آواز سننے کا کوئی فورم نہیں عدالت نے آرڈر دیا جسے فیڈرل گورنمنٹ نے چیلنج کر دیا جس کے حق میں فیصلہ آ جائے دوسرے اس پر برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں پولیٹیکل لیڈرشپ کی کورٹ عزت کرتی ہے مگر ان کا کام صرف بیانات دینا اور تقریریں کرنا نہیں ہے لوگ کہتے تھے آئین کیا ہے؟ کاغذ کا پرزہ ہے پارلے منٹیرینز کا احترام اس لیے ہے کہ وہ حلقے کے عوام کی آواز ہیں یہ عدالت ریاست کی جانب سے اختیار کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہیہر ریاستی ادارے کو اب پرو ایکٹو رول ادا کرنا چاہئے یہاں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ یہ کہتے ہیں کہ پورا ملک بلاک کر دیں گے حکومت کو نہیں چلنے دیتیایک بندہ آئی ایم ایف سے ٹاک کرنے گیا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں حکومت بھی اپوزیشن کے تعاون سے چلتی ہے یہ آئیں اور پارلے منٹ میں بیٹھیں شیریں مزاری کے خلاف کیس بزدار حکومت میں بنایا گیا تھاشیریں مزاری کو ان کا فون واپس کر دیا گیا ہے اس موقع پر فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پورے پاکستان میں انتقامی کارروائی جاری ہیاگر شیریں مزاری کی کسٹڈی کی ضرورت ہو تو عدالت کی اجازت لی جائے جس پر عدالت نے کہا کہ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد ایسی کارروائی توہین عدالت ہو گی ، اس عدالت نے اس آرڈر میں بہت ساری باتیں لکھی ہیں یہ فیڈرل گورنمنٹ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو ہدایات جاری کی کہ آپ اس آرڈر کو دوبارہ جا کر غور سے پڑھیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے دو ہفتوں کا وقت دیا جائے فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کے اعتراض پر کہ یہ بہت زیادہ وقت مانگ رہے ہیں اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمیں ایک ہفتے کا وقت دے دیا جائے عدالت نے شیریں مزاری کیس کی مزید سماعت 30 مئی تک ملتوی کر دی

مزید پڑھیں:  ججز خطوط، اسلام آباد ہائیکورٹ کا مشترکہ ادارہ جاتی رسپانس دینے کا فیصلہ