ہر بات کا جواب دینا اپنے اوپر لازم نہ سمجھیں

’’موقع پر کی ہوئی بات سونے کی ڈلیوں کی مانند ہوتی ہے۔‘‘

ایک علاقے میں ایک خاتون گزری ہیں جنہیں حاتم طائی کی بیوی کہا جاتا تھا۔ وہ نیک ، دیندار اور مالدار خاوند کی بیوی تھیں۔ ان کا گھر جس بستی میں تھا اس کے قریب سے ایک عام سڑک گزر رہی تھی۔ دیہاتوں کے لوگ اپنی بستیوں سے نکل کر اس سڑک تک آتے اور بسوں کے ذریعے پھر شہروں میں جاتے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ وہ جب پہنچتے تو بس کا آخری وقت ختم ہو چکا ہوتا ، رات گہری ہو چکی ہوتی ، اب ان مسافروں کو بس نہ ملنے کی وجہ سے انتظار میں بیٹھنا پڑتا اور بیٹھنے کے لیے کوئی خاص جگہ بھی نہیں بنی ہوئی تھی۔

اس نیک عورت جس کا خاوند خوش حال تھا، اپنے خاوند کو یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ہم مسافروں کے لیے ایک چھوٹا سا مسافر خانہ بنا دیں تاکہ وقت بے وقت لوگ اگر آئیں اور ان کو سواری نہ ملے تو وہ لوگ ایک کونہ میں بیٹھ کر وقت گزار لیں۔ خاوند نے مسافر خانہ بنوا دیا، لوگوں کے لیے بڑی آسانی ہو گئی ، جب بھی لوگ آتے اس کمرے میں بیٹھ کر تھوڑی دیر انتظار کر لیتے۔ پھر اس نیک عورت کو خیال آیا کہ کیوں نہ ان مسافروں کے لیے چائے پانی کا تھوڑا سا انتظام ہی ہو جائے، چنانچہ اس کو جو جیب خرچ ملتا تھا اس میں سے مسافروں لیے چائے پانی کا انتظام کر دیا۔

اب مسافر اور خوش ہو گئے اور اس عورت کو اور زیادہ دعائیں دینے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں یہ بات پسند کی جانے لگی کہ اللہ کی نیک بندی نے لوگوں کی تکلیف کو دور کر دیا۔ حتیٰ کہ اس عورت کو اور چاہت ہوئی، اس نے اپنے خاوند سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہوا ہے، اگر ہم کھانے کے وقت میں ان مسافروں کو کھانا بھی کھلا دیا کریں تو اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ اللہ کے دیے ہوئے میں سے ہی لگائیں گے۔ چنانچہ خاوند مان گیا۔

نیک بیویاں اپنی خاوندوں سے نیکی کے کام کروایا کرتی ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی تو تاج محل بنوائے اور کوئی گلشن آرا کا باغ بنوائے، یہ ساری بے وقوفی کی باتیں ہیں کہ دنیا کی چیزیں بنوا لیں۔ یہ کیا یادگار ہوئی؟ یادگار تو وہ تھی جو زبیدہ خاتون نے چھوڑی کہ جن کی نہر سے لاکھوں انسانوں نے پانی پیا اور اپنے نامۂ اعمال میں اس کا اجر بھی لکھا گیا۔ تو نیک بیویاں اپنے خاوندوں سے ہمیشہ نیک کاموں میں خرچ کرواتی ہیں۔ چنانچہ شوہر نے مسافروں کے لیے کھانے کا انتظام بھی کر دیا۔

اب جب مسافروں کو کھانا بھی ملنے لگا تو بہت سے مسافر رات میں وہاں ٹھہر جاتے اور اگلے روزاپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے، یہاں تک کہ وہاں پر سو پچاس مسافر رہنے لگ گئے ، کھانا پکتا ، لوگ کھاتے اور اس کے لیے دعا کرتے ۔ اب کچھ لوگ ضروریات سے زیادہ خیر خواہ بھی ہوتے ہیں جو خیر خواہی کے رنگ میں بدخواہی کر رہے ہوتے ہیں، دوستی کے رنگ میں دشمنی کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایسے آدمیوں میں سے ایک دو نے اس کے خاوند کو بات کی کہ جی تمہاری بیوی فضول خرچ ہے ، سو پچاس لوگوں کا کھانا روز پک رہا ہے۔

یہ فارغ قسم کے نکھٹو اور نالائق قسم کے لوگ یہاں آ کر پڑے رہتے ہیں، تمہیں اپنے مال کا کوئی احساس نہیں، یہ تو تمہیں ڈبو کر رکھ دے گی۔ انہوں نے ایسی باتیں کہیں کہ خاوند نے اُن کی باتوں میں آ کر کھانا وغیرہ بند کر دیا۔ عورت کو اس بات سے صدمہ تو بہت ہوا پر سمجھدار تھی اس لیے خاموش رہی۔ چند دن بعد خاموش بیٹھے دیکھ کر خاوند نے پوچھا کیا معاملہ ہے؟ بولی کہ بہت دن ہو گئے ہیں گھر میں، سوچتی ہوں کہ اپنی زمینوںپر چلتے ہیں جہاں کنواں ہے، ٹیوب ویل ہے باغ ہے۔ خاوند اُسے لے کر زمینوں میں آ گیا۔ پہلے تو وہ باغ میں پھولوں میں ادھر اُدھر گھومتی رہی ، پھر آ کر کنویں کے پاس بیٹھ گئی اور اس میں دیکھنا شروع کر دیا۔

خاوند سمجھا کہ ویسے ہی کنویں کی آواز سن رہی اور اندر سے پانی نکلتا دیکھ رہی ہے ۔ خاوند نے کہا چلو گھر چلتے ہیں ، لیکن وہ بدستور کنویں کے اندر جھانکتی رہی ۔ کافی دفعہ کہنے کے بعد بھی جب وہ کنویں کے پاس سے نہ اُٹھی تو خاوند قریب آیا اور بولا کہ کیا دیکھ رہے ہو۔ وہ بولی کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ جتنے ڈول کنویں میں جا رہے ہیں ، سب کے سب کنویں سے بھر کر آ رہے ہیں لیکن کنویں کا پانی ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا ، ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اس پر خاوند مسکرایا اور کہنے لگا کہ اللہ کی بندی! بھلا کنویں کے پانی بھی کبھی کم ہوئے ، یہ تو سارا دن اور ساری رات بھی اگر نکلتا رہے اور ڈول بھر بھر کر آتے رہیں پھر بھی کم نہیں ہوگا۔

تب سمجھدار خاتون نے جواب دیا : اچھا یہ اسی طرح ڈول بھر بھر کر اوپر آتے رہتے ہیں اور پانی ویسا ہی رہتا ہے ، نیچے سے اُوپر آتا رہتا ہے؟ خاوند نے کہا کہ تمہیں نہیں پتہ، بیوی نے کہا کہ میرے دل میں ایک بات آ رہی ہے کہ اللہ نے نیکیوں کا ایک کنواں ہمارے یہاں بھی جاری کیا تھا ، مسافر خانہ کی شکل میں ۔ لوگ آتے تھے اور ڈول بھر بھر کر جاتے تھے ، تو کیا آپ کو خطرہ ہوگیا تھا کہ اس کا پانی ختم ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ اور نہیں بھیجے گا۔

اب جب اس نے موقع پر یہ بات کہی تو خاوند کے دل پر جا کر لگی ، کہنے لگا کہ تم نے واقعی مجھے قائل کر لیا ہے، چنانچہ جب خاوند واپس آیا تو اس نے دوبارہ مسافر خانہ میں کھانا شروع کر وا دیا اور جب تک یہ دونوں میاں بیوی زندہ رہے ، مسافر خانہ کے مسافروں کو کھانا کھلاتے رہے۔ تو یہاں سے معلوم ہوا کہ نیک بیویاں فوراً ترکی بہ ترکی جواب نہیں دیا کرتیں بلکہ بات کو سن کر خاموش رہتی ہیں ، سوچتی رہتی ہیں اور پھر سوچ کر بات کرتی ہیں۔ انجام کو سامنے رکھ کر بات کرتی ہیں ، موقع پر بات کرتی ہیں اور کئی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ مرد اگر غصے میں کوئی بات کر بھی جائے تو دوسرے موقع پر وہ خود معذرت کر لے گا اور کہے گا مجھ سے غلطی ہوئی۔

لہٰذا اگر آپ نے کوئی بات کہی، اس پر مرد نے کہا میں ہرگز نہیں کروں گا، آپ خاموش ہو جائیے، دوسرے موقع پر وہ خوشی سے بات مان لے گا۔ یہ غلطی ہرگز نہ کریں کہ ہر بات کا جواب دینا اپنے اوپر لازم سمجھیں ۔ اس غلطی کی وجہ سے بات کبھی چھوٹی سی ہوتی ہے مگر بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے اور تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کے اندر جدائیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ اس لیے عقل مند عورت پہلے تولے گی اور پھر بولے گی ،کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اگر میں موقع پر بات کہوں گی تو اس بات کا اچھا نتیجہ نکلے گا۔