ایک محفل اور بے ربط باتیں

یہ خلیل خان جسے مَیں جانتا ہوں ،کسی زمانے میں فاختہ کی بجائے کبوتر اُڑایا کرتا۔ اب ضعیف العمری میں کبھی کبھی دوستوں کی محفل جمائے رکھتا ہے۔اس محفل کی خوبی یہ ہے کہ یہاں ڈگری یافتہ اور ناخواندہ احباب شریک ہوتے ہیں مگر کسی ایک موضوع پہ مکالمہ یافضول بحث میں نہیں اُلجھتے بلکہ کسی بھی موضوع پر جو جی میں آئے،کہے جاتے ہیں۔ اِن میں کوئی ربط نہیں ہوتا لیکن کسی کی دل آزاری اور کسی سے اختلاف بھی نہیں کرتے۔ کل اس محفل میں دوستوں کی بے ربط باتیں سنی تو آج خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے معزز قارئین کو بھی سنائی جائیں ۔ چونکہ اپنے عنوان کے اعتبار سے یہ باتیں موزوں اور جواز رکھتی ہیں ، اس لیے بھی ضروری جانا کہ ان باتوں کو ایک ہی کالم میں سمیٹا جائے۔ جمہوریت کے حوالہ سے کہا گیا کہ ہر نظام چاہے صدارتی ہو یا پارلیمانی ،اس کا تمام طریق کار اور کامیابی صداقت پر مبنی ہے۔ صدق اور سچائی کی حق تلفی سے ہر نطام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ تمام نظاموں پر صحیح عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے مطلق العنانی خود بخود وجود میں آجاتی ہے اور انسانی شخصیت میں ادھورا پن اور بے حسی باقی رہ جاتی ہے۔ ایسے میں تنقید برائے تنقید ہی رہتی ہے اور اس میں کوئی احساس اور شعور نہیں ہوتا۔ یہ کسی معاشرہ کی عادت بن جائے تو پھر یہ آمریت کی کسی بھی شکل کو بڑی بے حسی سے قبول کر لیتے ہیں۔ہر ڈکٹیٹر اور مطلق العنان حکمران کے ارد گرد ایسے مصائب اور خوشامدی جمع ہوجاتے ہیں جو اپنی قصیدہ گوئی سے اُسے یہ باور کرانے میں کامیاب رہتے کہ وہ اپنے ہر کام کو جائز اور کارنامہ سمجھتا ہے۔ نشر و اشاعت کے تمام ذرائع برسراقتدار لوگوں کے نظام اور ان کی شخصی خوبیوں کا واویلہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ڈکٹیٹر شپ کا یہ عدم تحفظ والا رویہ ہوتا ہے جو خارجی اثرات کو حاوی ہونے پر مجبور کرتا ہے۔ خارجہ پالیسی میں یہ طرز عمل اپنوں کو بھی بیگانہ بنا دیتا ہے۔ اپنی قومی تاریخ کو دیکھیں تو یہ ڈرامہ بازی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اپنا شعار اور طریق کار بدلنے پرآمادہ نہیں ہوتی۔ سر سید احمد خان سے لے کر علی گڑھ یونیورسٹی اور تحریک پاکستان تک غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے مغربی رحجانات غالب رہے اور صحیح نتائج مرتب نہ ہو سکے۔ ایک بے ہنگم جمہوریت محض طبقہ امراء کو جنم دیتی ہے جو صرف مفادات کے تحت وجود میں آتی ہے اور ان کے لئے مزید مالی وسائل پیدا کرتی ہے۔ نظریہ اور جمہوری اقدار کا حامی طبقہ جو ہمارے ہاں اقلیت میں ہے،اس کھیل تماشے کے ہوتے ہوئے اپنی زندگی گمنامی اور کرب میں گزارتا ہے۔ وہ آجکل جمہوریت کے نام پر اس بھپرے ہوئے ہجوم کا سامنا نہیں کرسکتا کہ یہ جلوس عقل وشعور سے مبرا ہوتے ہیںاور صرف جنونی اور انتقامی جذبے سے اپنے لیڈروں کی بھڑاس سن کر آگے بڑھتے ہیں۔ان بے ہنگم جلوسوں کو انقلاب کا نام نہیں دیا جاسکتا کہ یہ وقتی اور عارضی لہر ثابت ہوتی ہے۔ ریاست کی اکثریت کو قانونی حیثیت تب حاصل ہوتی ہے جب وہ خود قانون پر کاربند یا آئین کا شعور رکھتی ہو۔
ایک دوست نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ منافقانہ روش کسی بھی تہذیبی طرز زندگی کو پھلنے پھولنے نہیں دیتی،خواہ کسی بھی نظام حیات کو اپنایا جائے۔ ہر نظام اور ہر طریق کار کی ترقی کے امکانات اس قوم کے رحجانات کی مطابقت سے پیدا ہوتے رہتے ہیںلیکن جب اللہ کے احکامات کی پیروی کرنے والی اقوام منافقانہ روش اختیار کر کے دوسرے نظام کی طرف بھاگتی ہیں تو ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔یہ قران میںہے کہ اسلام غالب ہے اور چھا جانے والا نظام حیات ہے۔ دنیا کے کسی مذہب میں وقت اور حالات کے تحت ایسی خصوصیت نہیں کہ وہ صحت مندانہ رحجانات کے توسط سے ایک صحت مند ڈھانچے میں اپنے آپ کو ڈھال لے مگر وقت کے تقاضوں کے تحت اسلام میںارتقاکامادہ کہیں زیادہ پایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے بذاتِ خود اپنی کوتاہیوں سے اسلام کی نشو ونما میں دشواریاں پیدا کیں۔ اجتہاد سے صحیح کام نہیں لیا گیااور بہت سے مبلغین ایک ہی اندازِ فکر کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ اسلام کے حقیقی اعمال نامے کے بغیر ہر چیز بیکار ہے۔
انسانی فطرت کی گہرائیاں اصل میں سکونِ قلب کی متلاشی رہتی ہیں ۔ عمر کے آخری ایام میں ایک انسان چاہے وہ کتنا بڑا کافر،فلاسفر یا بڑے نظریات رکھنے والا ہو،ان کو جھٹلانے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور مانتا ہے کہ اللہ کا وجود ہی سب کچھ ہے اور اس کے احکامات ہی سکون قلب کا باعث ہو سکتے ہیں۔ جیسے فرعون نے آخری وقت میں کہاکہ ” اے موسیٰ ! تیرے اللہ پر ایمان رکھتا ہوں” ۔لیکن وقت گزر گیا تھا۔ فانی چیزوں پر اعتماد اور یقین ہمیشہ دشواریوں اور اُلجھنوں میں مبتلا کرتا ہے۔ اصل چیز وہ ہوتی ہے جو ہر حالت اور ہر واقعہ کے تحت ایک خوشگوار تاثر وکیفیت اور اطمینانِ قلب کا اشارہ دیتی رہے ، دلجوئی کرتی رہے۔ یہی سب سے بڑی حقیقت ہے،جس کو مد ِنظر رکھ کرانسانی تغیر وتبدل کی عکاسی کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند