سہو لیات کو سلا م

تحریک انصاف کا دھر نا مطالبات کے پورے ہوئے بناء ختم ہوگیا ساتھ ہی ایک نئے دھرنے کا اعلان سامنے آگیا ، عمر ان خان جو گزشتہ روز دھر نا قافلہ لے کر اسلا م آبا د کی طرف روانہ ہوئے تھے تما م راستے یہ ہی اعلا ن کر تے رہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جائیں گے تب تک وہ دھر نا ختم نہیں کریں گے مگر موصوف دھر نے میں شریک کا رکنوں کو بار بار دھرنے کے لیے ڈی چو ک پہنچنے کے لیے ہد ایت دیتے رہے مگر خود ڈی چوک نہیں گئے اورجنا ح ایو نیو پہنچ کر انھوں نے مختصر سی تقریر کی اور دھرنا یہ کہہ کر ختم کر دیا اور چلے گئیجبکہ پا رٹی کا رکن ڈی چوک پر احتجا ج کا افسو س ناک کھیل کھیلتے رہے کہ اگر ان کے مطالبات چھ روز میں پو رے نہ کیے گئے تو وہ دوبارہ نکلیں گے مگر یہ نہیں بتایا کہ کس حالت میں نکلیں گے دھرنا دینے یا کچھ اور منصوبہ بندی کے ،پچیس لاکھ افراد کا ٹھاٹیں مارتا ہو ا دھر نا دیکھنے کے لیے بیس بائیس کروڑ عوام سارا دن ٹی وی سکرین پر آنکھیں لگائے بیٹھی رہی لیکن خالی خالی سی سڑکو ں پر ان کو عوام کے سمندر کا مد وجزر نظر نہیں آیا ،عمر ان خا ن جو گزشتہ دو ما ہ سے دھرنے کی تیا ریو ں میں مصروف تھے ان کا سوشل میڈیا جس کمال مہارت سے کپتان کے جلسو ں کی تشہیر کر رہا تھا اس سے یہ خوف پیدا ہو چلا تھا کہ کہیں یہ چین کے عظیم انقلا بی رہنما ء ماؤزئے تنگ کا لا نگ ما رچ ثابت نہ ہو کو کہ ما ضی میں ماؤزئے تنگ کے لا نگ مارچ کو انقلا بیو ں کے لیے آئیڈیل قرار دیا جا تا تھا مگر جدید چین میں اب خود چینی اس لا نگ مارچ کو آئیڈیل نہیں گردانتے ۔یہ سچ ہے کہ عمران خان نے ماؤ کے لانگ مارچ سے بڑھ کر لا نگ ما رچ کے لیے بڑے جتن کیے اور شہر شہر پھر کر بڑے بڑے جلسے دکھا کر لا نگ ما رچ اور دھرنے کی کنڈلی ڈالی تھی ، پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کا گما ن تھا کہ یہ لانگ ما رچ اور دھر نا 2014کے دھرنے سے کہیںاونچی اڑان اڑے گا ، مگر خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا، اب کہا جا رہا ہے کہ موسم کی شدت سے لو گ باہر نہیں نکل پائے جب جذبات کھرے اور سچے ہو تے ہیں سونا می لہریں بھی رکاوٹ نہیں بنا کر تیں ۔توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ صوبہ خیبر پختون خوا سے ایک سمندر لا نگ ما رچ کا پھوٹ پڑاتھا ، وہا ں کوئی رکا وٹ بھی نہ تھی مگر جس تعدا د میں شریک سفر نظر آئے وہ بہت مایو س کن نہ بھی تھی تو حوصلہ افزاء بھی قرار نہیں پاتی ، مجید لا ہو ری مزاح کی شاعری میںبڑا ممتاز نام ہے انھو ں نے سیا سی لیڈروں کے بارے میں ایک نظم کہی تھی وہی یہا ں صادق نظر آئی خاص طور پر جب تپتی دھوپ میں پی ٹی آئی کے کا رکن مو ٹر وے کے انٹر چینج پر اپنے قائد کے انتظار میں دھوپ میں تپتے رہے اورنا قابل برداشت گرمی کا مقابلہ کرتے ہو نے نڈھا ل ہوگئے تاہم ان کی جا ن میںجا ن اس وقت آئی جب قائد محترم ایر کنڈیشنڈ ہیلی کاپٹر کے چمبرز سے برآمد ہوئے یو ں قافلہ کی سختی ختم ہوئی ۔ظاہر ہے کہ قائد کے بغیر جلوس رواں دواں تو نہیںہو سکتا ۔ وہ تاریخ کا یکتا لا نگ ما رچ ہی قرارپایا ہے گو پی ٹی آئی کے اس لانگ ما رچ کا ذکر سیاسی تاریخ میں درج تو ہو جائے گا مگر منفر د نہیں قرا رپا سکے گا گو کہ عمر ان خان نے اس کو غلامی سے آزادی ، اور مذہبی کا رنگ دے کر جہا د بھی قرار دیا ۔عمر ان خان اپنی تقاریر میںجنگ بدر کا اکثر حوالہ دیتے ہو ئے کہا کر تے ہیں کہ اس جنگ میں صرف تین سو تیر ہ افراد جنگ کے لیے نکلے ، باقی لو گ نہیں نکلے کیو ں کہ وہ ڈر تے تھے شاید ایسی صورت حال عمر انی جہا د کی بھی رہی ہو ۔خیر جو بھی ہو ایک با ت تو سچ ہے کہ 2014ء کی پی ٹی آئی کی تحریک کے دوران شیخ رشید اپنی پا رٹی کے پلیٹ فارم کو ترک کے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر چیخ چیخ کر عوام کو ترغیب دیا کر تے تھے کہ نو از شریف کی حکومت کو گرا دو ، جلا دو ، آگ لگا دو ، ایسا تو اس وقت نظر نہیں ہو پا یا اس مرتبہ شیخ رشید کی سیا سی پیشن گوئی درست ثابت ہوگئی وہ اس لا نگ مارچ اور دھر نے کے بارے میں کہا کر تے تھے کہ یہ خونی لانگ مارچ اور دھرنا ثابت ہو گا ۔لگتا تو ایسا ہی ہے پی ٹی آئی اور ان کے علا وہ جماعت اسلا می پاکستان کے امیر جناب سراج الحق کہا کرتے ہیں کہ پرامن احتجا ج کرنا عوام کا جمہوری اورآئینی حق ہے اب یہ لیڈر اکر ام فرمائیں کہ جو کچھ ڈی چوک پر ہو ا کیا آئین اورجمہوریت ایسا حق دیتی ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے جب کہہ دیا تھا کہ ڈی چوک اور ریڈزون میںداخل نہ ہو نا پھر ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کیو ںکر دی کیا ان ہدایت کا روں کو قانو ن اور آئینی پا بندی کوئی علا قہ نہیں ہے پھر قائد پی ٹی آئی عمر ان خان نے اپنے کا رکنوںکو ڈی چوک پہنچنے کی ہد ایت تو دی لیکن پی ٹی آئی کی پوری قیادت ڈی چوک خود نہیں پہنچی ، ڈی چوک میں جو کچھ ہو ا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہو تی ہے ،جب کہ ان کو سہولت کا ری مل گئی تھی کہ حکومت نے عدالت اعظمیٰ کی ہدایت کے مطابق پی ٹی آئی کے تما م گرفتا رشدہ افراد کو رہا کر دیا ، سٹر کو ں کو کھول دیا ، جب عمر ان خان نے خود ڈی چوک نہیں جاناتھا پھرکس مقصد کے لیے کا رکنو ں سے کہا گیا کہ وہ ڈی چوک پہنچیں ، اس کا جائزہ بھی لینا چاہیے ،عمر ان خان تو اکل کھرے مسلما ن ہیں وہ اپنی سیاست کوبھی دین سے جدا کر کے نہیں دیکھتے ، پاکستان کو مدینہ ریا ست بنانے کا عزم ظاہر کرتے رہتے ہیں اسی لیے انھو ں نے لانگ ما ر چ کو جہا د قرا ر قر ار دیا ، اورجب عمر ان خان جنا ح ایونیوپر اپنی اختتامی تقریر فرما رہے تھے اس لمحہ قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ہلکے انداز میں عمر ان خان سے کہا کہ جہا د اور مدینہ ریاست کا ذکر کریں ۔گویا عمران خان ہی نہیں ان کے تما م ساتھی دین کے شید ائی ہیں کسی موقع پر دین کو نہیں بھول پاتے ، اب سمجھ نہیں آتا کہ ڈی چوک پر دین سے اعتنائی کیو ں برتی گئی ۔کہ بینک کا اے ٹی ایم اکھاڑ پھینک دیا گیا رقم لو ٹ لی فائر بریگیڈ کی گاڑیو ںکو نقصان پہنچایا گیا ، میٹرووے کا اسٹیشن نذر آتش کر دیا گیا درختو ں کو آگ میںجھو نک دیا ۔ پی ٹی آئی کے بعض لیڈر کہتے ہیں کہ یہ تباہی وبربادی پی ٹی آئی کے ورکر وں نے نہیں کی تو یہ حرکت کرنے والے کو ن تھے لوگو ں نے دیکھا کہ آگ لگانے والوں کے پاس پٹرول سے بھری بوتلیں بھاری تعداد میں تھیں گویا یہ عناصر آگ لگانے کی پوری منصوبہ بندی سے آئے تھے ۔ اگرپی ٹی آئی کا تعلق نہیں ہے توکیا یہ مسلم لیگ شیخ رشید گروپ سے ہے کیو ںکہ وہ وہی پی ٹی آئی کے ایسے اتحادی ہیں جو اپنی پا رٹی کے قائد کم بلکہ پی ٹی آئی کے ٹائیگر زیا دہ لگتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟