ہر کوئی روکے دکھا دے یہ ضروری تو نہیں

گزشتہ روز ایک خاندانی تقریب میں شرکت کا موقع ملا بلکہ مسلسل تین روز تک بہت مصروفیت رہی کہ مہندی ‘ بارات اور پھر ولیمہ تاہم اب وہ وقت نہیں رہا جب اس قسم کی تقریبات کے لئے مخصوص دن مقرر ہوا کرتے تھے ‘ کیونکہ وہ سادگی کا زمانہ تھا ‘ عموماً اس قسم کی تقریبات گلی محلوں میں ہوتی تھیں ‘ لوگوں کے دل اس قدر محبتوں سے بھرے ہوتے کہ اگر تقریب کے لئے اپنے گھر میں جگہ کم ہوتی تو ہمسایوں کے گھر اور مہمان خانے(بیٹھک) ہمہ وقت وا ہوتے’ مہمانوں کو چائو سے خوش آمدید کہا جاتا ‘ سب محلے والے مل کر مہمانوں کی خدمت کرتے ‘ مگر اب زمانہ تب بدل گیا ہے اب تو اپنے گھر لوگوں کو تنگ لگنے لگے ہیں اس لئے تقریبات کے لئے شادی ہال جانا پڑتا ہے ‘ اور شادی کی تقاریب کے لئے تاریخوں کا تعین کرتے ہوئے ان شادی ہالز کی انتظامیہ کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے اس لئے اب ضروری نہیں کہ آپ کو مہندی ‘ بارات اور ولیمے کے لئے آپ کی پسند اور مرضی کی تاریخیں مل جائیں ‘ شہر میں ایسے ایسے شادی ہالز بھی ہیں جہاں چھ چھ مہینے ایڈوانس بکنگ ہو چکی ہوتی ہے خصوصاً اختتام ہفتہ کی تاریخیں تو ملنا اتنا آسان نہیں ہوتا ‘ سو مجبوراً بعض اوقات جمعہ ہفتہ اتوار کے علاوہ دیگر دنوں کے لئے بہ امر مجبوری ہاں کرنی پڑتی ہے ‘ اس کے بعد ہی سدے(نیوتا) نکالے جاتے ہیں ‘ شادی کارڈز وغیرہ پر تاریخیں ڈالی جاتی ہیںاور مہمانوں کی آئو بھگت کرنا پڑتی ہے ‘ جب ایوبی دور میں پہلے ایک دن اور پھر دو دن گوشت کے ناغہ کے لئے مقرر کئے گئے تو ملک بھر میں صرف قصائی برادری نے اپنی شادی بیاہ کے لئے منگل اور بدھ کا انتخاب کیا ‘ مگر اب تو یہ تخصیص بھی ختم ہو چکی ہے اور اگر کسی کی جانب سے منگل یا بدھ کا دعوت نامہ آپ کو ملے تو آپ یقین سے قطعاً نہیں کہہ سکتے کہ دعوت کسی قصائی دوست کی جانب سے آئی ہے ۔یہاں ایک بات یاد کرانا ضروری ہے کہ ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم نے روٹی کا تذکرہ نہیں کیا اس دور میں پلائو ‘ زردہ اور دال گوشت کا بنا ہوا قورمہ سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی ‘ یہ بالکل سادہ اور سستا کھانا ہوتا تھا ‘ ہر امیر غریب آسانی سے برداشت کر لیتا تھا ‘ شہر میں اسے ”ترے چھتی” روٹی کہتے تھے بعد میں آہستہ آہستہ بعض افراد نے اس میں اختراع کرکے اس میں سادہ یا پھر نرگسی کوفتوں کے ساتھ ساتھ کھیر یا کسٹرڈ اور آلو بخارے کا مربہ اور کچھ نے گوشت کی پلیٹ کا اضافہ کیا ‘ خصوصاً خواتین میں ”نک غوش”یعنی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو خاندان میں ناک کٹ جائے گی ‘ مقابلے کی فضا قائم ہوتی چلی گئی ‘ اور اب صورتحال یہ ہے کہ انواع و اقسام کے کھانوں کا مقابلہ ہوتا ہے ‘ خواہ جیب اجازت دے یا نہ دے ‘ یعنی بے شک قرض اٹھایا جائے مگر ناک اونچی رکھنا ضروری ہے ‘ جس زمانے میں ”ترے چھتی”روٹی کا رواج تھا تو شادیوں میں پہلے مقامی طور پر (دیسی انداز) کے گانے گائے جاتے تھے ‘ اگر کسی کی جیب اجازت دیتی تو قوالوں کو بلوا کر قوالی کی محافل کا اہتمام کیا جاتا ‘ گھروں کے اندر پشتو کے گانے یا پھر ہندکو بولنے والوں کے ہاںایسی خواتین بلوائی جاتیں جو مختلف فلموں کے علاوہ روایتی قدیم گھریلو نغمے (جن میں ایک خاص صنف سٹھنیاں بھی ہوتے جس کی تفصیل میں نہیں جایا جا سکتا) اس دور میں مدتوں سے گایا جانے والا نغمہ
تیرے سہرے توں میں واریاں وے
سہرے والے ‘ توں بلہاریاں وے
جیوے بنڑا ‘ عمراں ساریاں
بہت مشہور تھا ‘ جو آج بھی گھروں کے اندر اسی جوش و خروش سے گایا جاتا ہے جس طرح مدتوں پہلے تھا ‘ اس دوران میں ایک پنجابی فلم کرتار سنگھ بنی جس کا ایک نغمہ بہت مشہور ہوا جس کے بول تھے
دلیاں دا راجہ میرے بابل دا پیارا
امڑی دے دل دا سہارا
کہ ویر میرا گھوڑی چڑھیا
اس گانے نے پورے برصغیر میں وہ دھوم مچائی کہ ہندوستان اور پاکستان کے کونے کونے میں بارات کے موقع پر بینڈ پر بھی یہی دھن چھائی رہی اور آج کل اس کی مقبولیت کم نہیں ہو سکی ‘ اس دوران جب پشتو فلمیں بننا شروع ہوئیں تو ایک پشتو فلم میں مرحوم یونس قیاسی کا لکھا ہوا نغمہ
شپہ دہ نکریزو جینکئی طنبل وہینہ
خلق د ہر خوا نہ پہ وادہ راغلے دینہ
یعنی مہندی کی رات ہے ‘ لڑکیاں طنبل پہ گانے گا رہی ہیں ‘ اور لوگ ہر طرف سے شادی میں شرکت کرنے آئے ہیں ‘ یہ تو طویل عرصے سے بطور روایت گائے جانے والے نغمے ہیں اور بھی فلمی گانے گائے جاتے تھے ‘ مگر چند برس پہلے بھارت کی فلموں میں بھی کچھ گانے تو قدیم زمانے سے رائج موسیقی کی بنیاد پر ریکارڈ کئے گئے تھے ‘ جن میں پوربی زبان کا استعمال کیا گیا تھا ‘ اسی طرح پنجابی کلاسیکی شاعری پر مبنی ایک نغمہ اتنا خوبصورت ہے جس کے بول یہ ہیں
ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے
بابل اساں ٹرجانڑاں
کہ دلوں کو چھو کر گزر جاتا ہے ‘ اس نغمے کو مختلف لوگوں نے گایا ہے یہاں تک کہ ایک منفرد موسیقار مرحوم طفیل نیازی نے اسے جس مہارت سے گایا ہے کہ جواب نہیں ‘ بھارت میں بھی کئی خواتین گلوکاروں نے اسے گا کر زندہ جاوید بنا دیا ہے ‘ البتہ ایک بھارتی فلم میں تقریباً دودھائی دہائی پہلے رخصتی کے موقع پر ایک نغمہ سامنے آیا جو تقریباً رخصتی کی ہر تقریب کے موقع پر اس کا ریکارڈ لگا کر دلہن کی رشتہ دار خواتین کو بہت متاثر کرتاہے ‘ نغمے کے بول ہیں
دولہے کا سہرا سہانا لگتا ہے
دلہن کا تو دل دیوانہ لگتا ہے
مگر اب زمانہ بہت بدل چکا ہے پہلے جب دلہنیں رخصت ہوتی تھیں تو رو رو کر نہ صرف خود نڈھال ہوجاتی تھیں بلکہ ماں ‘ بہنوں ‘ پھوپھیوں ‘ چچیوں ‘ ممانیوں ‘ بہنوں ‘ بھابیوں اور دیگر قریبی رشتہ دارخواتین کو بھی آنسوئوں کا سیلاب بہانے پر مجبور کر دیتی تھیں ‘ لیکن اب ایسا بالکل نہیں ہوتا ‘ اگرچہ خاندان کی خواتین رو رو کر اب بھی اپنا برا حال کر دیتی ہیں مگر دلہن؟۔۔۔ اس کا دماغ خراب نہیں کہ بیس ‘ پچیس ‘ تیس بلکہ بعض صورتوں میں لاکھ لاکھ روپے کے خرچ سے کرایا ہوا میک اپ آنسو بہانے سے خراب کرنے کا رسک لیں ‘ اس لئے الٹا وہ رونے والوں کو تسلیاں دیتی ہے ‘ یعنی بقول شاعر
ہر کوئی رو کے دکھا دے یہ ضروری تو نہیں
خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں