شادی کوماں کی خدمت سے مشروط کرنے والی لڑکی

شیخ ناصر العمر نے اپنی کتاب ’’بیوت مطمئنۃ ‘‘ میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس لڑکی کی ماں بوڑھی ہو چکی تھی۔ اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس کے لیے کئی ایک رشتے آئے۔ وہ ایک سنجیدہ اور مؤدب لڑکی تھی۔ اسلامی تہذیب و ثقافت سے اسے بہت لگائو تھا۔ وہ انتہائی دیندار تھی۔ ہر بات کو دین کے میزان میں تولتی ۔ اس کے جب کئی طرف سے شادی کے رشتے آئے تو اس نے پیغام دینے والوں کے سامنے یہ شرط رکھی کہ میں اسی آدمی سے شادی کروں گی جو مجھے اپنی والدہ کے پاس رہنے دے گا ، تاکہ میں اپنی والدہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکوں۔

ایک پیغام اسے موصول ہوا۔ پیغام بھیجنے والے کو لڑکی کی شرط معلوم تھی کہ جب تک ماں زندہ ہے ، وہ اسی کے پاس رہے گی تاکہ اس کی خدمت کر سکے۔ لڑکے کو یہ شرط منظور تھی ، پھر جھٹ پٹ شادی ہو گئی۔

شرط کے مطابق لڑکی کی رخصتی نہیں ہوئی بلکہ وہ حسب سابق اپنی والدہ کے پاس ہی رہی۔ رات اور دن میں وہ کئی دفعہ اپنی عمر رسیدہ ماں کی حسب ضرورت خدمت کرتی تھی اور اس کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتی تھی۔ جو بھی دیکھتا وہ اُس بوڑھی عورت پر رشک کرتا کہ اُسے کتنی فرمانبردار بیٹی نصیب ہوئی۔
یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا ۔ بالآخر وہ دن آ گیا جو ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ لڑکی کی والدہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

ماں کی وفات کے بعد وہ لڑکی بہت روئی ۔ وہ غم سے نڈھال ہو چکی تھی۔ کسی نے اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا:
’’آہ! اب میں اپنی ماں کہاں سے لائوں گی؟ کسے ماں کہہ کر پکاروں گی؟ کس کی خدمت کروں گی؟ ماں کے قدموں تک جنت ہے۔ آج میرے لیے جنت کا ایک دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اب میں خدمت کیلئے ماں کہاںسے لائوں گی؟

لڑکی ، ماں کے وجود کو اپنے لیے بہت عظیم نعمت تصور کرتی تھی۔ وہ ماں کی خدمت کرنے میں اپنی آخرت کی کامیابی سمجھتی تھی ۔ اسے یہ غلط فہمی نہیں تھی کہ بوڑھی ماں اُس کی خدمت کی محتاج ہے ، بلکہ وہ سمجھتی تھی کہ وہ بوڑھی ماں کی محتاج ہے۔ اُس کی خدمت ہی سے اسے وہ مقام مل سکتا ہے جس کا حصول ماں کی خدمت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے وہ اپنی ماں کے انتقال کے بعد بے حد غمزدہ تھی۔

بلاشبہ وہ لڑکی اپنی ماں کی اطاعت گزار تھی۔ اس کی ماں وفات کے وقت اُس سے راضی تھی۔ ماں باپ کا اولاد سے مرتے وقت تک راضی رہنا اولاد کے حق میں دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے، چنانچہ زمانے نے دیکھا کہ وہ لڑکی ایک اچھے خاندان کو چار چاند لگانے کا سبب بنی۔ اس کے دو بچے ہوئے۔ دونوں نیک اور صالح تھے۔ دُور دُور تک اُن کے تقویٰ کا چرچا تھا۔ وہ دونوں اللہ کے نیک اور صالح بندوں میں سے تھے۔ یہ اُس لڑکی پر بھی اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی خدمت کا صلہ تھا کیوں کہ اُس نے بوڑھی والدہ کی بہت خدمت کی تھی۔