نئی حکومت اور پیٹرول بم

نئی حکومت نے بالآخر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 30روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے باوجود حکومت اب بھی ڈیزل پر فی لیٹر 56روپے سبسڈی دے رہی ہے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ یہ ریاست کے لیے صحیح فیصلہ ہے۔ اس سے سیاسی نقصان ہوتا ہے تو ہوجائے۔سیاست بچا کر ریاست کو ڈبونا حکمت کا فیصلہ نہیں ہے’ ہماری سیاست ڈوبتی ہے اور ریاست بچ جاتی ہے تو یہ ملک کے لیے بہتر ہے ۔آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی اور معیشت کی بہتری کے لئے جن سخت فیصلوں کی ضرورت تھی اور گزشتہ حکومت کے جو فیصلے نافذ ہونے کے بعد واپس لئے گئے تھے ان کی بحالی کا سخت فیصلہ بھاری سیاسی قیمت کی ادائیگی پر بالاخر حکومت کو کرنا پڑا ہے ۔معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ حکومت کو معیشت کی بہتری کے لئے ایک ماہ قبل ہی سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کرنا لینا چاہئے اس ماہ کے دورانئے میں جو بھاری رقم سبسڈی کی مد میں ادا کرنا پڑی بظاہر تو یہ رقم عوام کو سہولت دینے کے مد میں خرچ ہوئی لیکن بباطن یہ رقم بھی عوام ہی سے وصول کی گئی دیگر شعبوں سے قطع نظر اگر صرف تعلیم جیسے بنیادی اہمیت کے حامل شعبے ہی کی مثال دی جائے تو نئی حکومت کواس شعبے کے لئے مختص رقم سے بھی کٹوتی کرنی پڑی اسی طرح یقینا دیگر شعبوں اور مدات سے رقم حاصل کرکے ہی حکومت نے سبسڈی پوری کی ہو گی جو کسی طور مسئلے کا حل نہیںتھااس کے باوجود بھی صورتحال حکومت کے بس سے باہر اس لئے ہوتی جارہی تھی کہ اس کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ میں انحطاط اور ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا جس کے باعث مہنگائی کی شرح میںروز افزوں اضافہ ہوتا گیا اس کی مثال ترازو کے دونوں پلڑوں کی دی جاسکتی ہے کہ ایک پلڑے پر وزن ڈالا جائے تو دوسرے پلڑے کا توازن بگڑ جاتا ہے ۔سبسڈی واپس نہ لی جاتی تو اس سے تقریباً سوا سو ارب مہینے کا خسارہ ہوتا جس کے لئے بجٹ کے اندر کوئی گنجائش نہیںا س صورتحال میں حکومت کے پاس معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ترجیحات پرنظر ثانی فطری امر تھا حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لئے سبسڈی کی واپسی اور ٹیکس میں اضافہ کئے بغیر ممکن نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ آئی ا یم ایف سے مذاکرات ان کی شرائط پوری نہ ہونے پر کامیاب نہ ہو سکے ۔حکومت نے پیٹرول پر سبسڈی کا خاتمہ کیا ہے اور ممکن ہے بہت جلد بجلی پر بھی سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ مہنگائی کی شکل میں عوام پر اچانک سے بہت بھاری بوجھ پڑے گا جبکہ صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے مسائل کا شکار عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان پر مزید بوجھ ڈالنا ان کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کی رفتار کو تیز کرنے کے مترادف ہے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ صرف ان دو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ لے کر نہیں آتا بلکہ ٹرانسپورٹ سے لے کر زرعی مشینری غرض ہر چیز جس میں ایندھن کا براہ راست استعمال ہوتا ہے یا بالواسطہ ہر چیز پر اس کا اثر پڑتا ہے اور ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے صرف مہنگی نہیں ہوتی بلکہ جس شرح سے اس شعبے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں کوشش ہوتی ہے کہ اس سے دگنا وصولی ہو جائے حیران کن امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی مجبوری کے پیش نظر جو سبسڈی واپس لی گئی ہے وہ اپنی جگہ یوٹیلٹی سٹورز پر بیس کلو آٹا کے تھیلے کی قیمت میں اچانک سے 180روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے حالانکہ وزیراعظم شہباز شریف نے شانگلہ کے ٹھنڈے اور پرفضا مقام پر عوامی اجتماع سے جذباتی خطاب میں تن کے کپڑے بیج کر آٹا سستا کرنے کا اعلان کیا تھا اس کے باوجود آٹا مہنگا ہونا قابل غور ہے۔ وزیراعظم کی جماعت نے گزشتہ دور حکومت میں مہنگائی مکائو مارچ کیا تھاساتھ ہی ساتھ جے یو آئی نے بھی مہنگائی کے خلاف بھر پور طریقے سے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا لیکن اب جبکہ ماضی قریب میں حکومت پر سخت تنقید کرنے والی سیاسی جماعتیں خود اقتدار میں ہیں اور فیصلے کا اختیار رکھتی ہیں تو ان کے فیصلوں اور رخصت شدہ حکومت کے فیصلوں میں کوئی بھی فرق نہیں جب حقیقی صورتحال یہی ہونا تھی تو عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پھر حکومت کی رخصتی سے عوام کو کیا ملااس سے یہ بات ایک مرتبہ پھر واضح ہوجاتی ہے کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لئے نہ تو رخصت شدگان کے پاس کوئی مناسب فارمولہ تھا اور نہ ہی ان کی جگہ لینے والے اس حوالے سے کسی بہتری اور عوام کو ریلیف دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں الٹا ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت اور کاروبار حیات متاثر ہوئی اور عوام کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کو مایوسی ہوئی یہ درست ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری لانا کوئی آسان کام نہیں لیکن حکومت بعض اقدامات کے ذریعے بہتری کی سنجیدہ سعی کرسکتی ہے اس حوالے سے مختلف مکتبہ ہائے فکر کی جانب سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں اس میں سے ایک ایندھن کی بچت کے لئے ہفتے میں ایک دن گھر سے کام کرنے کی تجویز ہے جن اعلیٰ شخصیات جس میں دفاع ‘ عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت سبھی شامل ہیں ان کو مفت پیٹرول کی سہولت ختم کی جائے ‘ سرکاری ٹرانسپورٹ کا استعمال محدود کیا جائے اور اس کے غیر قانونی استعمال کا پوری طرح خاتمہ کیا جائے ۔دس ایکڑ سے زرعی اراضی پر ‘پرتعیش مکانات پر ایک مرتبہ کا بھاری ٹیکس عائد کیا جائے اور 18سو سی سی سے بڑی گاڑیوں پر بھی مزید ٹیکس لگایا جائے پیٹرول کے استعمال میں کفایت شعاری کے مزید راستے تلاش کئے جائیں خاص طور پرحکومتی اخراجات میں کمی لائی جائے غیر ترقیاتی اخراجات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور جتنا ممکن ہو سکے انقلابی اقدامات کے ذریعے عوام کا بوجھ کم کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے