” پھنس گئی جان شکنجے اندر”

مزاحمت عوام کا درد خدمت ساری باتیں اپنی جگہ تلخ حقیقت یہی ہے کہ آئی ایم ایف کی اطاعت کے بنا دوقدم چلنا مشکل ہے اسلامی دنیا کی ایٹمی طاقت ”پھنس گئی جان شکنجے اندر”والی صورتحال سے دوچار ہے لیکن بے سروپا پروپیگنڈہ کی اسیر مخلوق سچ سننے کو تیار ہی نہیں خیر اگلے کالم میں اس موضوع پر تفصیل سے بات کرتے ہیں تازہ دھماکے دار خبر تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات میں پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کے دبائو پر پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے ۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ ”سیاسی فائدے کے لئے ریاست کا نقصان نہیں کرسکتے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے قرضہ پروگرام کی بحالی اور ملک کے دیوالیہ نہ ہونے کی گارنٹی دیتا ہوں”۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کی منظوری کے نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں30 روپے لیٹر اضافہ کیا گیا ہے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ”بیرونی غلامی کی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑے گی۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا’ وزیر خزانہ کا موقف ہے آئی ایم ایف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے تک ریلیف دینے سے انکار کردیا تھا۔ حکومت نے مشکل حالات میں ایک مشکل فیصلہ کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پٹرولیم سبسڈی ختم کرنے پر 90کروڑ ڈالر قرضہ دے گا۔ وپنجاب کی غلہ منڈیوں میں گندم کی فی من قیمت 2700روپے تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں مہنگائی کے خلاف مارچ کرنے اور اعدادوشمار کے ساتھ قوم کو یہ سمجھانے میں مصروف رہنے والے کہ اگر حکومت اس طرح کرلیتی تو قیمتیں بڑھانے سے بچا جاسکتا تھا مگر اقتدار میں آتے ہی ان قائدین کا موقف اپنے ہی پرانے موقف کے برعکس ہوگیا اب تواتر کے ساتھ یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مالیاتی مسائل آئی ایم ایف کی مدد سے ہی حل ہوسکتے ہیں اور آئی ایم ایف کی اولین شرط پٹرولیم پر دی گئی سبسڈی کا خاتمہ ہے۔ حالانکہ وزیر خزانہ نے دو ہفتے قبل تو یہ نوید دی تھی کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات اچھے رہے ہیں اور یہ کہ6ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام میں عالمی مالیاتی ادارہ ایک ارب ڈالر کے اضافے پر بھی آمادہ ہوگیا ہے اب بتایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کی90کروڑ ڈالر کی پچھلی قسط صرف اس شرط پر دینے پر آمادہ ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے اور سبسڈی ختم کی جائے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافے کے حوالے سے حکومتی زعما کا موقف جو بھی ہو لیکن تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 30روپے لیٹر کا اضافہ عام شہریوں کے مسائل کو مزید گھمبیر بنائے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے جو سیاسی قائدین اپنے زمانہ اپوزیشن میں اس وقت کی حکومت کے اقدامات، پالیسیوں اور مالیاتی اداروں سے ہونے والے معاملات میں عوام دشمنی اور غیر ذمہ دارانہ طرزعمل نکال نکال کر دکھا رہے ہوتے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی ویسے ہی اقدامات کو ملک اور عوام کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہوئے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پچھلی حکومت ایسے کانٹے بوگئی ہے جو اب پلکوں سے چننا پڑیں گے ۔ جس بنیادی سوال کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ عوام پر جو بوجھ ڈالا جارہا ہے وہ اسے برداشت بھی کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اور یہ کہ کیا ایسے دوسرے اقدامات ممکن نہیں جن سے اصلاح احوال کی صورت بن سکے؟ مثال کے طور پر حکومت عبوری مدت کے لئے غیر ضروری اخراجات میں کمی کے ساتھ غیر ترقیاتی مدوں کے مصارف میں کمی لائے۔ پٹرولیم سمیت وہ تمام سہولتیں جن سے افسر شاہی اور حکمران اشرافیہ مفت میں استفادہ کرتے ہوں کسی تاخیر کے بغیر ختم کردی جائیں۔ ہماری رائے میں ایسا کیا جانا قیمتیں بڑھاتے چلے جانے سے زیادہ ناگزیر ہے۔ عوام کے خون پسینے سے مراعات کی عیاشی کا سلسلہ کسی تاخیر کے بغیر بند کیا جانا چاہیے۔ تعلیم اور صحت کے علاوہ تمام شعبوں کے مصارف میں کمی کی جائے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ چند دن قبل تو وزیر خزانہ تواتر کے ساتھ یہ کہتے دکھائی دے رہے تھے کہ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوا تو معاشرے کے کمزور طبقات کے لئے ریلیف کا انتظام کیا جائے گا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوا حالیہ اضافہ ملکی تاریخ میں ایک ہی وقت میں سب سے زیادہ اضافہ ہے اس کے منفی اثرات کے تدارک کے لئے حکومت کے پاس ممکن ہے کوئی علاج ہو۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہرگز نہیں۔ جہاں تک سابق حکومت سے تعلق رکھنے والے بعض رہنمائوں کا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر ردعمل کا تعلق ہے تو ان سے بصدِ احترام یہ دریافت کرلیا جانا چاہیے کہ آپ کے پونے چار سالہ دور میں پٹرول کی فی لیٹر قیمت 65 روپے سے 150روپے تک جا پہنچی اس وقت کمزور طبقات کی ابتر حالت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت کیوں نہ محسوس کی گئی؟ بہرطور یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگا کہ وطن عزیز میں حکومت کسی کی بھی ہو عوام کے اجتماعی مفادات اور ان کے حالات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں بنانے اور فیصلے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ہر دور میں مشکل حالات بتاکر عوام سے قربانی کی اپیل کرنے والی قیادت اور معاشرے کے بڑے طبقات ایثاروقربانی کو اپنے لئے غالبا غیرضروری سمجھتے ہیں۔ اسی لئے نتائج ہمیشہ عام شہری بھگتتاہے، اب بھی وہی بھگتے گا۔ باردگر یہ عرض کردوں کہ غیر ترقیاتی مصارف اور مراعات کی عیاشی کے خاتمے تک مالیاتی توازن قائم ہوسکتا ہے نہ عام آدمی کی حالت بہتر دیکھنا یہ ہے کیا 13 جماعتوں کی مخلوط حکومت اس ملک پر لادے گئے غیر ترقیاتی اخراجات کا کچھ بوجھ کم کرنے کی جرأت کرتی ہے یا نہیں اس ایک سوال کا جواب میں ہی ہمارے بچوں اور اس ملک کا مستقبل ہے ۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان