امن کی واپسی اور سیاحت

سوات میںجب شورش ہورہی تھی یعنی طالبان بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے 2007ء سے لے کر 2010ء تک سوات میں تباہی مچادی تھی تو میں نے بحیثیت ایک ذمہ دار شہری کے اپنے قلم کو ان کی اصلاح اور حکومتی اداروں کی مدد کے لئے وقف کررکھا تھا جب2011ء ،میں ملک میں نگران حکومت تھی اور ہمارے صوبہ میں انجینئر شمس الملک نگران حکومت کے وزیر اعلیٰ تھے تب بھی اور پھر مرکز میں پیپلز پارٹی اور صوبہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی بلا شرکت غیرے حکومت تھی اس وقت بھی میرا قلم سوات سمیت شمالی علاقہ جات اور سابقہ قبائلی علاقہ جات میں امن کے لئے کوشاں رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے پیارے صوبہ میں تو خاص طور پر حالات بالکل بھی پرامن نہیںتھے ان میں سارے شہروں میں اگر دہشت گردوں کی کارگزاریاں ‘ تو خاص طور پر قبائلی علاقہ جات اور ضلع سوات میں تو امن و مان نام کی چیز ہی نہیںتھی۔ ایک طرف ان شرپسندوں سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے دوسری طرف پاک فوج کے جوان اور افسر بھی ان کی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے تھے مقامی انتظامیہ تو جیسے مفلوج ہوکر رہ گئی، حکومتی اہلکار فنڈز ہونے کے باوجود کوئی بھی فلاحی و ترقیاتی کام سرانجام دینے سے قاصر تھے،جان ہر کسی کو پیاری ہے، کوئی بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر طالبان کی کھال اوڑھے ان ملک دشمن، پختون دشمن اور انسانیت کے دشمنوں کے سامنے آنے کو تیار نہیںتھا۔جو بیک وقت پختونوں کی روایات کا خون کررہے تھے، مسلمانوں کا خون کررہے تھے اور سب سے بڑھ کر انسانیت کو ذبح کررہے تھے۔ان کا نہ کوئی مذہب تھا نہ کوئی اقداران کو چھوکر گزری تھیںجو کچھ ہوتا رہا وہ عظیم پختون اقدار کے بھی بالکل الٹ تھا۔
نگران وزیر اعلیٰ انجینئر شمس الملک نے اپنے مختصر دور میں فرمایا کہ سوات میں آگ بجھادی گئی ہے لیکن اس کی راکھ اور دھواں ابھی موجود ہے جس سے شرپسند عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس آگ کو مکمل طور پر ٹھنڈا کرنے کے لئے حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر اور متحد ہوکر کرنا ہوگا، ہمیں پختون روایات کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا جس سے ہر سطح پر مشران جرائم اور لاقانونیت کے خاتمے لئے متحرک ہوتے تھے، اپنے مسائل مقامی سطح پر ہی حل کر لئے جاتے تھے، بدقسمتی سے آج یہ روایات ناپید ہوگئی ہیںجرگہ اور حجرہ سسٹم بے اثر ہوچکا ہے، اس کااحیاء ناگزیر ہے، میں نے تب بھی اپنے کالموں کے ذریعے حکومت کا یہ پیغام عام عوام کو مطمئن کرنے کے لئے خوب اجاگر کیاپھر ہم سب نے دیکھا کہ مالاکنڈ میں حالات معمول پر آئے اس کے کچھ ہی عرصہ میں قبائلی علاقہ جات اور خاص طور پر سوات میں بھی امن بحال ہوگیا۔
سارے پاکستان کی طرح ہمیں بھی اس وادی سے پیار ہے ، وہ اس وجہ سے بھی کہ ہمارا سالِ پیدائش اورریاست سوات کے پاکستان کے ضلع بننے کا سال ایک ہے، والئی سوات نے اس خطہ کو امن کا گہوارا بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر و ترقی کے لئے بھی بھر پور کوشش کی، دنیا بھر کے سیاح سوات کی خوبصورتی پر مرتے ہیں، اسے دوسرا سوئٹزرلینڈ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، سوات اور قبائلی علاقہ جات کے حسن و خوبصورتی دنیا کی کوئی طاقت زرا برابر بھی زچ نہ کرسکی، سکندر اعظم سے لیکر مغلوں اور پھر انگریزوں نے بھی اپنی مقدور بھر کوشش کی کہ اس پرامن علاقہ کو کشت و خون میں نہلاکر امن بستی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دہشت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیں مگر یہاں کے غیور عوام نے کبھی بھی کسی بھی جابر حکمران کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا، ہر دور میں ہر طرح سے ان دراندازوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہوں پسپائی پر مجبور کیا ہاں البتہ اگر کسی نے پیار و محبت سے بات کی امن و سلامتی کے لئے کوشش کی تو سوات کے مہمان نوازوں نے سرفراش راہ کرلئے، سکندر اعظم کے لئے یہ سنگلاخ پہاڑ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند تھے مگر محمود غزنوی کے لئے یہاں کے عوام کے دل موم کی طرح نرم ہوگئے، اس عظیم سپہ سالار نے اس علاقہ کو دین اسلام سے متعارف کروایا اور پھر امن کے گہوارے نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔طالبان کی دہشت گردی کے دور میں اس علاقے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا پچھلی چند حکومتوں نے اپنے حصہ کا کام کیا تاہم ابھی بہت کام ہونا باقی ہے ۔ بالخصوص جب اس علاقے کی طرف دنیا بھر کے سیاحوں کی نظر پڑگئی ہے لہٰذا اب بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس پر اگلے کسی کالم میں تفصیل سے لکھوں گا۔ گزشتہ دنوں اپنے گھر والوں کے ساتھ سوات جانے کا اتفاق ہوا تو امن دسکون دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا، اور اس سے بھی بڑھ کر جب پاکستان بھر کے سیاحوں کو درجنوںنہیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اس علاقہ کی طرف آتے جاتے اور وہاں پر اپنے خاندان والوں کے ساتھ جن میں خواتین بھی شامل ہیں دن بھر ، ہفتہ بھر بلکہ اس سے بھی زائد عرصہ گزارتے دیکھا تو اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ سوات کی سیر کو آنے والے سیاحوں میں ہمارے اپنے صوبہ کے لوگوں کے علاوہ ایک اچھی بڑی تعداد پنجاب کے سیاحوں کی تھی جو مری کی بجائے یہاں آرہے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر میں نے کراچی ، اندروں سندھ کے کئی لوگوں کو خواتین اور بچوں کے ساتھ مختلف مقامات پر بے خوف و خطر سیر کرتے دیکھا تو یقین جانئے بڑی خوشی ہوئی۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت