معیشت پرمذاکرات سے مفاہمت کا آغاز ہو سکتا ہے

منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میںپاکستان کی کل آبادی کی ایک تہائی حصے کے لئے امداد کا اعلان کیا ہے یہ اس مالی امداد کے علاوہ ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت انہیں پہلے سے دی جارہی ہے ۔وزیر اعظم نے ملک کو درپیش معاشی مسائل کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے لے کر ترقی یافتہ ممالک سمیت سب اس شدید معاشی صورت حال سے دوچار ہیں۔غریب عوام کو قیمتوں میں اضافے کے بوجھ سے بچانے کے لیے ریلیف پیکیج بارے وزیراعظم نے کہا کہ ہم غریب عوام کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بوجھ سے بچانے کے لیے28ارب روپے ماہانہ سے نئے ریلیف پیکیج کا اعلان کر رہے ہیں، جس سے پاکستان کے ایک کروڑ40لاکھ غریب ترین گھرانوں کودوہزار روپے دئیے جائیں گے آئندہ سال کے لیے اس ریلیف پیکیج کو بجٹ میں شامل کیا جائے گاان کا کہنا تھا کہ پونے 4سال قبل میں نے بطور قائد حزب اختلاف میثاق معیشت کی تجویز پیش کی تھی، جس کو حقارت سے نظرانداز کردیا گیا، یہ وقت کی آواز اور قومی ضرورت ہے، اس چارٹر پر اتفاق کے لیے میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر رہا ہوں تاکہ آئندہ کوئی بھی حکمران یا حکومت اپنے ذاتی سیاسی مفادات کے لیے قومی معیشت کے ساتھ کھلواڑ نہ کرسکے اور معاشی تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے۔وزیر اعظم شہبازشریف کا خطاب اپنے پیشرو وزیراعظم کے مقابلے میں متوازن ضرور تھا لیکن اس کے باوجودوزیراعظم نے گزشتہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے معاشی صورتحال کی ابتری کی بڑی ذمہ داری انہی پر عائد کرنے سے احتراز نہیں کیا۔ یہ درست ہے کہ معاشی و اقتصادی مسائل میںگزشتہ حکومتوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا یہ بھی درست ہے کہ گزشتہ حکومت نے ملکی تاریخ کے ریکارڈ قرضے لئے جس سے قطع نظر اب بال موجودہ حکومت کی کورٹ میں ہے اور اب یہ موجودہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک و قوم کو اس معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ایسے ٹھوس فیصلے کرے جو نتیجہ خیز ہوں۔وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے آبادی کے ایک بڑے حصے کے لئے جن مراعات ا علان کیا گیا ہے اگرچہ یہ ان کے معاشی مسائل کا حل تو نہیں لیکن بہرحال بقدر اشک بلبل ہی سہی حکومت ان کی مدد کرے گی دوسری جانب طبقہ اشرافیہ کو کسی مدد کی ضرورت نہیں ایسے میں لے دے کے زیریں متوسط اور متوسط طبقہ ہی رہ جاتا ہے جو حقیقی معنوں میں اپنی طرز زندگی اور محدود آمدن کے باوجود آگے بڑھنے کی جستجو میں مشکلات کا شکار ہے دیکھا جائے تو ملک کا یہ طبقہ سب سے نظر انداز طبقہ قرار پاتا ہے جس قسم کے حالات جاری ہیںایسے میں اگراس طبقے کے حوالے سے غور نہیں کیا گیا تو یہ طبقہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے چلا جائے گا اور ملک میں اشرافیہ اور غریب طبقہ رہ جائے گاجس کے بعد معاشرتی کشمکش اور تعصب و نفرت کی فضاء میں اضافہ ہو گا جو خدانخواستہ کسی بڑے تصادم پر منتج ہوگا۔بنا بریں حکومت کو آمدنی کے حوالے سے زیریں طبقہ کی ممکنہ اشک شوئی کے بعد متوسط طبقے کے حوالے سے بھی کسی پروگرام کا اعلان کرنے کی ضرورت ہو گی اچھا خاصا متوسط طبقے کو درپیش مسائل و مشکلات کی ایک بڑی مثال پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والے ایف بی آر کے گریڈ اٹھارہ کے ڈپٹی کمشنر کا گاڑی چھوڑ کر موٹر سائیکل پر دفتر جانے کا فیصلہ ہے جن کی تنخواہ 1لاکھ 17 ہزار روپے ہونے کے باوجود وہ گاڑی کا خرچہ نہیں برداشت کر سکتے تو عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر مشکلات کا شکار ہو ںگے حکومت کو بجٹ بناتے ہوئے اس طبقے کی مشکلات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے جہاں تک وزیراعظم کی جانب سے میثاق معیشت کے اپنے قائد حزب اختلاف کے دور کے مطالبے کے اعادے کا تعلق ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جاری ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام محب وطن افراد اور جماعتوںکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی اختلافات اور جدوجہد کو ملکی مفاد میں ایک طرف رکھتے ہوئے اس واحد نکتے پر اتفاق کے لئے آمادگی کا اظہار کریں اور مل بیٹھ کر معاشی و اقتصادی مسائل کے حل کے لئے اپنی تجاویز دیں اور ایک مشترکہ اور متفقہ ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جس میں تمام تر مفادات کو ایک طرف رکھ کر ملک کے معاشی و اقتصادی مفادات کو اولیت اور اہمیت دی جائے اور ملکی مفاد کے ایسے فیصلے اس اعتماد کے ساتھ کئے جائیں کہ اگر ان فیصلوں کی بنیاد پر کوئی بڑی عالمی طاقت دبائو بھی ڈالنا چاہے تو اس کا قومی حمیت کے ساتھ مسکت جواب دیا جا سکے اور صورتحال کا ہر سطح پر مقابلہ کرنے کے لئے صف بندی کی جائے جب تک قوم اپنے مفادات کے لئے ایک مٹھی بن کر کھڑی نہیں ہو گی اس صورتحال سے نکلنا آسان نہ ہو گا۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد