ایک اخلاقی انسان کا تصور

زمانہ قدیم سے دُنیا کے کئی فلسفیوں اورمفکروں کے ذہن میں ایک ایسے انسان کا تصور ابھرتا رہا جو انسانی خصوصیات کے حوالے سے کامل ہو اور اُنہوں نے مختلف خطوط پر اخلاقی انسان کا تصور پیش کیا ہے۔ ارسطو کا ”مثالی انسان” ، نیطشے کا ”فوق البشر”، ابن العربی کا’ ‘انسان کامل’ ‘ اور مولاناروم کے علاوہ علامہ اقبال کا ”مرد کامل” اس کی شہرہ آفاق مثالیں ہیں۔ مولانا روم اپنے مرد کامل کی تلاش پر خوب زور دیتے رہے ۔اس حوالہ سے ان کی نو اشعار پر مشتمل غزل کو علامہ اقبال نے ‘جاوید نامہ’ میں نقل کیا ہے۔مولانا نے اپنے مرد کامل کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دیو و دو ملولم و انسانم آرزو است
زہیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رستم دستانم آرزو است
(کل شیخ بھی چراغ لے کر شہر کے گرد گھوما کہ میں دیوؤں اور درندوں سے ملول ہوں ،مجھے انسان کی آرزو ہے۔اپنے سست الوجود ہمراہیوں سے تنگ آگیا اور مجھے شیرِ خداحضرت علی اور ایرانی پہلوان رستم کی آرزو ہے) فارسی شاعر عطاء اللہ عطا نے مولانا سے یوں اختلاف کیا ہے:
یک اختلاف ہست بہ شیخِ مرا عطا
گوید چو او کہ رستم دستانم آرزو است
من آرزوئے رستم دستاں نمی کنم
شیرِخدا بس است و فقط آنم آرزو است
(عطا صاحب کہتے ہیں کہ مولانا سے میرا یہی اختلاف ہے کہ اُنہوں نے رستم پہلوان کی آرزو کی ہے جبکہ مَیں رستم کی آرزو نہیں کرتا۔ مجھے بس شیر خدا حضرت علی کافی ہے اور مجھے صرف اُن کی آرزو ہے)۔عطا صاحب یہی کہنا چاہتے ہیں کہ کہاں ایک معمولی پہلوان اور کہاں شیر خدا۔
جرمن فلسفی نیطشے کا تصوراتی فوق البشر عوام کو اپنی وحشیانہ طاقت سے روندتا ہوا چلا جاتا ہے اور اشرافیہ کا احترام کرکے صرف انہیں جینے کا حق دیتا ہے۔ نیطشے کے اسی تصور نے ہٹلر کو جنم دیا جس نے عوام کی ایک اکثریت کو کچل ڈالا۔ آخر سوویت یونین کی عوامی طاقت نے اُسے شکست دی۔
یہ طاقت کا نظریہ موجودہ دَور میں عملی جامہ نہیں پہن سکتا،کیونکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی دُنیا کی قوموں میں اتحاد اور یگانگت پیدا کر رہی ہے اور نیا اخلاقی انسان آزادی، مساوات اور اخوت کا سبق سیکھ رہا ہے۔وہ اجتماعیت پسند ہے اور کسی فوق البشر کی محکومی میں اشرافیہ کو جنم دینے کی بجائے اجتماعی سطح پر اخلاقی انسانوں کی تخلیق چاہتا ہے تاکہ معاشرے میں ہر طرف حسن ،صداقت اور خیر کی روشنی پھیل جائے۔
اجتماعی طور پر اخلاقی انسان کی تخلیق صرف اسی معاشرے میں ہو سکتی ہے جس کا معاشی نظام استحصال سے پاک ہو اور جوتعلیمی نظام پیشہ ور انہ قابلیت پیدا کرنے کے علاوہ نئی نسل کو سماجی اخلاق اور اس کی تہذیبی اقدار سے آشنا رکھے۔ ہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب تک طبقاتی نقطہ نظر سے معاشرے کی تنظیمِ نو نہ کی جائے تو پھر اجتماعی سطح پر اخلاقی انسان کی تخلیق مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں شخصیت پرستی بھی معاشرے کو تقسیم کر رہی ہے جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔ شخصیت پرستی کسی بھی معاشرہ کا فساد انگیز مظہر ہے۔ جس کے ہم شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ رُحجان ہے جس کے ذریعے کسی قوم کا ایک سیاسی رہنما اپنے حواریوں کی وساطت سے اپنی تکریم پرستش کی حد تک کراتا ہے۔اس طرح ایک شخص کی عظمت عوام کے ذہنوں پر چھا جاتی ہے۔ اگرچہ کسی شخصیت کی اچھی صفات کا احترام ضروری ہے مگر اس کی پرستش معاشرے کی ذہنی بالیدگی کے لیے بڑی ضرر رساں ہے۔ شخصیت پرستی بالعموم سیاسی میدان میں سر اُٹھاتی ہے اور پھر بہت جلد انحطاط پذیر ہو کر ذہنوں سے اُتر جاتی ہے۔تاریخ گواہی دیتی ہے کہ انسانوں نے جب بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے ،معاشرے کی فلاح و خوشحالی کے لیے کیا ہے۔ موجودہ جمہوری دور میں طاقت کا نظریہ ناکام ہو رہا ہے ۔بڑی بڑی انقلابی تحریکوں میں انسانوں نے ایثار،بے غرضی اور استغنا کا مظاہرہ کیا ہے۔اس لیے کہ وہ ایک خوشحال،نیکو کار اور علم کی روشنی سے منور معاشرہ تخلیق کر سکیںکیونکہ انسان کو اچھے اخلاق کی ضرورت صرف معاشرہ کے حوالے سے ہوتی ہے۔ اسی باعث ایسے اخلاقی معاشرے میں رہتے ہوئے وہ اپنی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ