استاد سے سر تک کا سفر

شکل و شبہ سے اس کا تعلق کے پی کے سے لگتا تھا، لباس اور وضع قطع کے لحاظ سے کسی کھاتے پیتے خاندان سے منسلک معلوم ہوتا تھا۔ اپنی بول چال سے کافی پڑے لکھے ہونے کا ثبوت پیش کر رہا تھا۔ اس نے بیٹھتے ہی اپنی جیب سے پین نکالا اور اپنے پاس کچھ نوٹ کیا اور ہاتھ کا اشا رہ بھی استعمال کرتے ہوئے ویٹر کو بلایا۔ منہ میں سگریٹ کو تھما کر گویا اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس اجنبی کے اس منفرد انداز کو میں پاس بیٹھا ٹیبل پر کافی کی سِپ کے ساتھ انجوائے کرنے لگا۔ ویٹر جو کہ اپنی ہیئت و لباس سے کسی طور اعلیٰ عہدیدار یا کسی غیر معمولی افسر سے کم نہ لگتا تھا۔ بڑی شائستگی اور وقار سے کافی ٹیبل پر رکھتا اور الٹے پاؤں واپس اپنی جگہ پر پہنچ جاتا۔ اس کا یہ عمل کسی ملٹری اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہونے پر بھی دلالت کرتا تھا۔ میری کافی کے ختم ہوتے ہی اس اجنبی شخص کا ایش ٹرے بھی بھر چکا تھا اور اس نے دوبارہ اسی لہجے و انداز میں ویٹر کو بلایا۔ لیکن ویٹر نے اس کی طرف کان دھرنا پسند ہی نہ فرمایا۔ ویٹر کا اس شخص کے ساتھ یہ رویہ میرے لیے جتنا تشویش ناک ہوناچاہیے تھا وہ ظاہر ہے۔ اتنے میں اس اجنبی کی سگریٹ کا آخری کش منہ کے ساتھ لگا ہی تھا کہ میں پلٹ کر اس کی ٹیبل پر جا بیٹھا اور سلام کرنے کی بمشکل جسارت پائی۔ وہ شاید میری سوالیہ آنکھوں سے آشنا ہو چکا تھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ محترم جناب! میں نے اس کی طرف چونک کر دیکھا۔ اصل میں ٹیکنالوجی کا سفر اتنا تیزی سے طے پایا ہے کہ جس میں ہمارے الفاظ و سوچ کا تناسب و ملاپ قدرے غیر ہم آہنگی کا شکار ہو چکا ہے۔ ہم جو سوچنا چاہتے ہیں وہ بول نہیں پاتے اور جو بولنا چاہتے ہیں وہ سو چتے نہیں اور جو سوچتے ہیں وہ بول نہیںپاتے۔ہماری فکری سوچ کا زاویہ بھی اسی ناہم آہنگی کا شکار ہے کہ دوسروں کی زبان سے اپنے بارے میں ہم جو سننا چاہتے ہیں وہی الفاظ اوروں سے ادا ہو نہیں پاتے۔ اس نا ہم آہنگی کی وجہ کوئی ہمارے مواصلاتی نظام میں ٹیکنیکل خرابی ہو،نظریاتی اختلافات ہوں یا پھر کسی نیوٹرل نیوٹران کی مداخلت ہو۔ اس کا نتیجہ بھیانک ہی نکلتا ہے۔ جو مخالف کے نہ صرف موڈ پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ فکری و عملی زندگی میں بھی اپنا گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ اس نے یہی الفاظ ایک بار پھر دہرائے اور آخر میں کہا ”سر آپ کو میرے خیالات سے اتفاق نہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے ” یہ کہتے ہوئے ایک اورسگرہٹ جلانے میں مشغول ہو گیا۔ اتنے کہ میں ان سے سوال کرتا کہ آپ نے مجھے اس بار سر کہہ کر پکارا اور اس پر بڑا زور کیوں دیا۔ اس نے بڑے ادب و احترام سے کہا سر مجھے پتہ ہے آپ فلاں یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ آپ کے تحقیقاتی مقالے میں نے پڑھ رکھے ہیں۔ سر اور استاد کے القاب آپ کو ہی ججتے ہیں کیونکہ آپ قوم و ملت کے معمار ہیں۔ آپ لوگوں کے فن و مہارت ہی کی وجہ سے قوم و ملت کی بقا ہے۔ میں اسی گفتگو کے دوران نہ صرف اس ویٹر کے نا زیبا رویہ کی وجہ جان چکا تھا بلکہ اس اجنبی شخص کے تحمل و بردباری کی وجہ بھی مکمل طور پر مجھ پر عیاں ہو گئی تھی۔ میں نے پوچھا ” سر آپ کوئی جاب کرتے ہیں ؟ کوئی ہاں یا ناں میں جواب دینے کی بجائے اس نے ایک گہری سانس بھری اور بولا اس زمانے میں استادوں کے بھی کیٹیگریز پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ جو رکشہ یا بس ڈرائیورز ہیں۔ یہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور کسی پر اثر انداز ہونا شاید نہیں جانتے۔ دوسرا طبقہ موٹر میکینکس یا آرکیٹکٹس کا آتا ہے۔ یہ کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کی رائے و عمل پر اثر انداز ہونا کم از کم چاہتے ضرور ہیں۔ تیسرا گروہ ہر اس شخصیت کا ہے جو کسی نہ کسی درجے میں سیاسی بیک گراؤنڈ رکھتا ہے۔ یہ طبقہ اس درجہ بندی میں سبقت رکھتا ہے۔ یہ قدرے پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں اور اس درجہ بندی کے سفر میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ یہ ”سر” کے القا ب سے پکارے اور مانے جاتے ہیں اور ”سر ” کہہ کہ نہ پکارنے پر شدید مذمتی اور غیرشائستہ ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اب آپ اس ویٹر کی کیٹیگری کا تعین خود ہی کیجیئے کہ یہ استاد یا سر کی کونسی کیٹیگری میں آتا ہے۔ یہ کہتے ہی اس نے اپنی دوسری سگریٹ جو کہ آدھی سے زیادہ بچی ہوئی تھی، پھینک ڈالی اور کہا کہ میں مندرجہ بالا کیٹیگریز سے ہٹ کر ایک معمولی نوعیت کا استاد ہوں اور کافی عرصے سے تدریسی شعبہ سے منسلک ہوں۔ مجھے استاد یا ٹیچر ہونے پر فخر ہے اور میں اپنے لئے استاد صاحب یا استاد محترم کہلوانا پسند کرتا ہوں۔ ہاں اگر کوئی مجھے سر کہ کے مخاطب کرے تو بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ مخاطب کرنے والے میں سر یا استادٹیچر کے القاب دینے میں کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی مخاطب کرنے والا ہر اک کو سر کہتا ہو یا استاد کہہ کہ کسی مخاطب کرنے کی لت سے کوسوں دور ہو۔ سوچ و عمل کے اس معیار کو ہم نے مل کر درست سمت پر لانا ہے ورنہ ہمارا معاشرہ نام نہاد ”سر ”جنم دیتا رہے گا اور قریب ہے کہ ہمارے معاشرے میں سارے ہی استاد ہوں اور شاگرد کوئی رہے ہی نہ ۔ البتہ جب تلک یہ ذہن سازی پوری طرح اپنی جڑیں نہیں پکڑتی تب تک آپ نے دوسروں کے ساتھ اپنا رویہ کسی طور نا مناسب اور غیر شائستہ نہیں ہونے دینا۔ یہ کہتے ہی اس نے مجھ سے اجازت مانگی اور بغیر قافی پئے چل دیا۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد