مشرقیات

ہم کہاں کے سچے تھے یہ ڈرامے کا عنوان ہے تاہم آپ چاہیں تو اس قسم کی حالت سے دوچار یہاں ہر طبقے کو دیکھ سکتے ہیں سب کے پاس اپنا اپنا سچ ہے اور پھر بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ سچا ہے۔ سچے ہونے کے لیے جھوٹ سے پرہیز لازم ہے اور ادھر حال یہ ہے کہ عام آدمی سے لے کر خواص تک سب دھڑلے سے جھوٹ بیچ کر رزق حلال کماتے ہیں، ہمارے ایک جاننے والے شرطیہ خالص دودھ بیچ بیچ کر حاجی سے الحاج بننے کا سفر بھی کر چکے ہیں اب اسی کمائی سے ہر سال نہ سہی دوسرے سال ضرور عمرہ کرنے کے لیے جاتے ہیں جہاں بقول ان کے وہ خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے کاروبارحیات میں برکت کی دعا کرتے ہیں ۔رہی بات خواص کی تو آپ نے دیکھا ہوگا ان کی اکثریت رمضان میں دیار حرم دو ڑ پڑتی ہے جہاں سے وہ اپنی خصوصی تصاویر اور ویڈیوز تک نشر کر کے ہم غریبوںکو اطلاع دیتے رہتے ہیںکہ وہ اللہ کے کتنے مقبول بندے ہیں۔ان مقبول بندوں کا کاروبار حیات شرطیہ خالص دودھ جیسا ہی ہوتا ہے ۔دو نمبر کی ادویات سے لے کر کھانے پینے کی ہر چیز میں ملاوٹ کی کمائی سے وہ نیکیاں کمانے کے چکر میں رہتے ہیں۔چلیں ہم غلط کہہ رہے ہیں تو کوئی ہمیں اس ملک میں خالص شہد ہی ڈھونڈ کے لادے ،بڑے بڑے نیک نام حاجی صاحبان ہی اس کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔عمارتی میٹریل کی مثال لیں ،یہاں عمدہ اور گھٹیا مال بنانے والے دونوں کو مکس کر کے ایک ہی دام کھرا کرنے کا دھندہ کرتے ہیں۔اینٹ عمدہ معیار کی ہو یا گھٹیا ٹرک خالی ہوتے وقت گنتی کر لیں ہزار میں سے سو کم اینٹوں کا چونا الگ لگایا جاتا ہے اصل منافع کے ساتھ ۔یہ جو نان بائی حضرات بیٹھے ہیں ان کے پاس پہلے گوندھے آٹے سے پیڑے بناتے ہوئے وزن کرنے کے لیے ترازو لازمی ہوتی تھی عشروں پرانی بات ہے اب ہاتھ کی فن کاری میں اتنے طاق ہیں کہ اسی سے ترازو کا کام لیتے ہیں کسی کو پروا بھی نہیں ہوتی وزن پورا کرنے کی۔ناپ تول میں کمی کے ایسے اور بھی مقامات آہ وفغاں ہیں ۔سرکاری ٹھیکیدار جو حال سرکاری ٹھیکوں کا کرتے ہیں اس کا توپورا ملک ڈسا ہوا ہے اب کوئی گھر کی مرمت یا تعمیر کرے تو کاریگر سے لے کر ٹھیکیدار تک اپنے کسب کمال آزمانے کی بجائے مالک کی جیب جلد سے جلد خالی کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ہر شعبے کے ان فنکاروںکو کوئی سیدھی راہ سمجھائے تو وہ الٹا خود کو سچا ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں ادھر سمجھانے والے حضرت بھی جانتے ہیں کہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے ،سب ڈاکہ ڈال کے امیر ہوئے ۔یہی مقصد حیات ہے ہمارے ہاں اور اس کے لیے ہی سب نے جھوٹ یا چرب زبانی کہہ لیں کو ہتھیار بنایا ہوا ہے ایسے میں کوئی سچا ہے ہی نہیں اس لیے کہتے ہیں کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو ادھر حال یہ ہے کہ ہم گناہ گار بہت ہیں اور توبہ کی توفیق بھی نہیں مل رہی۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی