حق دو

حکومت خواہ رخصت شدہ ہو گزشتہ حکومتیں ہوں یا پھر موجودہ اعلانات کی تکمیل پر کسی دور میں بھی توجہ نہیں دی گئی ہر دور حکومت میں حکمرانوں کے وعدوں اور اعلانات کو جمع کیا جائے تو عوام کے تمام مسائل اب تک کئی بار حل ہو چکے ہوتے اورکوئی حل طلب مسئلہ نہ ہوتاکاش ایسا ہی ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والا اعلانات کرکے آتا ہے اور ہر جانے والا ناکامی کی داستان چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے عوام کے غمخواروں کی باتیں سنیں تو ہر حکمران وقت اپنے وقت کا عظیم مصلح اور عوام کا غمخوار ہے اور جو پہلے والے تھے وہ ڈاکو لٹیرے اور ٹھگ کبھی غور کیجئے تو محسوس ہو گا کہ ہر حکومت وقت دعوے ہی کرتی ہے اور کچھ نہیں ہر دور حکومت میں وہی اعلانات دہرائے جاتے ہیں وہی دعوے دوبارہ سے کئے جاتے ہیں جو ان کی پیشرو حکومتیں کر چکی ہوتی ہیں ایک قاری بتاتے ہیں کہ انہوں نے عرصہ پچیس سال ریڈیو پاکستان میں مترجم کی خدمات انجام دیں پہلے دن سے رخصت ہونے تک کسی بھی دور حکومت میں ان کو بالکل بھی نیوزبلیٹن میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی ہر دور حکومت خواہ وہ آمریت کا دور ہو یا جمہوریت کا دور کم و بیش ایک جیسے دعوے اور وعدے ہوتے رہے ہیں ایک دلچسپ کہانی وہ مشرف کے حکومت پر قبضہ کا بتاتے ہیں کہ اچانک ایک حوالدار آکر ان کے پاس کرسی ڈال کر بیٹھ گئے پوچھنے پر کہا گیا کہ ان کو نیوز کی مانیٹرنگ کی ذمہ داری دی گئی ہے بھلا پنجابی بولنے والا اور اردو سمجھنے والے کو کہوار میں ترجمہ شدہ خبروں کی شد بدھ ہی کیا مگر ڈیوٹی ڈیوٹی ہوتی ہے اور اگر سپاہی آرمی کا ہوتو جوکہا گیا وہ کیا گیا خواہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے اسی طرح ایک صوبیدار صاحب نیوز روم میں بیٹھتے تھے جو گریڈ بیس کے کنٹرولر نیوز کی مانیٹرنگ پر مامور تھے جبکہ ایک اور صوبیدار صاحب نیوز سٹوڈیو میں نیوز ریڈر کے بالکل ساتھ کرسی ڈال کر بیٹھتے تھے کہ کہیں کوئی گڑ بڑ نہ ہوحالانکہ اگر گوجری اور کہوار بلیٹن میں خاص طور پر کہوار بلیٹن میں اگر ساتھ بیٹھے صوبیدار صاحب کے بارے میںیہ کہا جاتا کہ یہ خبریں ریڈیو پاکستان سے نشر کی جارہی ہیں اور میرے پاس ایک خاکی وردی والا نگرانی کے لئے بیٹھا ہے تو موصوف کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی یہ بھی انہی ہی کی سنائی ہوئی کہانی ہے کہ 1971ء کی جنگ کے قیدیوں کو جب آل انڈیا ریڈیو پرموقع دیا جاتا توایک قیدی اپنی خیریت سے اردو میں آگاہ کرتے کرتے ایک چھوٹا سادو لفظی جملہ بھی بولتے تھے بھارتی فوجیوں کوشک گزرا تو پوچھ بیٹھے تو موصوف نے وضاحت کی کہ جس طرح آپ سمجھے کہتے ہیں یہ بھی اسی طرح کا ایک دو لفظی جملہ ہے حالانکہ محاورے کا مطلب یہ تھا کہ جوکچھ میں کہہ رہا ہوں یہ بالکل بھی حقیقت نہیں ہمارے حکمرانوں کے دعوے اور وعدے بھی اس دو لفظی جملے کے ساتھ ملا کر پڑھے اور سنے جائیں تو مناسب ہو گا۔کتنے وعدے یاد دلائیں کوئی ایک ہو تو یاد بھی دلانا ممکن ہو بے شمار وعدے اور دعوے اخبار بینوں اور میڈیا پر سننے و پڑھنے والوں کو تو ازبر ہو گئے ہوں گے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائوں کہ
باری باری بیانات اور موقف بدلتے رہتے ہیں آئی ایم ایف سے قرضے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بجلی و گیس بلوں ٹیکس کی شرح میں اضافہ مہنگائی جیسے عوام کی مشکلات پرمبنی عوامل ہی کو لیں تو کل تحریک انصاف کے وزراء جو کچھ کہہ رہے تھے اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ کی قیادت اور کارکن و خاص طور پر سوشل میڈیا جس طرح ان کے لتے لیتا تھا آج معاملہ برعکس ہے حکومت جانے اور اقتدار ملنے پر قبلہ بھی بدل جاتا ہے اور موقف بھی ناخوب ‘ خوب ہوجاتا ہے اور خوب ناخوب ہوجاتا ہے ۔ ایسے میں عوام کے مسائل کا حل کیسے ہو صرف باتیں ہی ہوسکتی ہیں اور دعوے ہی ہو سکتے ہیں مسائل و اقتصادی و معاشی مشکلات ویسے کے ویسے موجود ہوتی ہیں صرف اقتدار کی کرسی پر دوسرے براجمان دکھائی دیتے ہیں اتحادی تو پہلی حکومت میں بھی حکمران تھے اور آج بھی وہی حکومت میں ہیںاس کے باوجود پہلے والوں کو اور آج والوں کو اچھا ہی کہیں گے شریک اقتدار اور اتحادی جوٹھہرے ۔آپ کو ان کو لوٹا کہنے کا حق حاصل ہے بلوچستان میں حق دو تحریک مشکل صوبے اور پسماندہ ترین و محروم رہ جانے والے صوبے و علاقے کے عوام کی ایک موثر آواز بن کر جس طرح ابھری ہے اور اس تحریک کے بلدیاتی امیدوار جس طرح سے تقریباً پورے کے پورے کامیاب ہوئے ہیں یہ پورے ملک کے عوام کے لئے ایک سبق اور روشنی کی کرن ہے حق دو تحریک کی مقامی قیادت مخلص تھی اور بلوچستان کے عوام کو سمجھ آگئی ہے کہ ان کے حق کی بات کرنے والے اسلام آباد ‘ لاہور اور کراچی و پشاور میں بیٹھنے والے نہیں ہو سکتے ان کے حقوق کی بات کرکے سڑکوں پر دن رات سخت سردی میں ان کے ساتھ دھرنا دینے والے ہی ان کے غمخوار ہو سکتے ہیں چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مقامی سطح پر ہی سہی اس مرتبہ بڑے بڑے سورمائوں کے عزیز و اقارب کی بجائے وہ اپنے ہی میں سے بلدیاتی نمائندے منتخب کر لیتے ہیں یہ شعور عملی جدوجہد سے پیدا ہوئی اور انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کر دکھایابھارت میں اس طرح کے کامیاب تجربات کے نتائج عوام کے سامنے ہیں جبکہ ماضی میں کراچی کے عوام مخلص نمائندوں کو بلدیاتی انتخابات میں کامیاب کرانے کے خوشگوار تجربات کے نتائج دیکھ چکے ہیں مگر پھرایم کیو ایم کی عصبیت غالب آگئی اور کراچی اجڑے دیار کا منظر پیش کرنے لگا۔ کراچی لہو لہو ہوگیا جس طرح کے شعور کا مظاہرہ گوادر کے عوام نے کیا دیگر صوبوں میں بھی اس طرح کے شعور کا مظاہرہ کرنا ابھی باقی ہے عوام کوجان لینا چاہئے کہ ان کے مسائل کا حل کسی بھی حکومت اور حکمران کے پاس نہیں ان کے مفادات اور سیاست ہوتی ہے عوام اگراپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو وہ بھی گوادر کے عوام کی طرح اپنے مسائل کے حل کا اختیار اپنوں میں سے نمائندے منتخب کرکے ان کو سونپیں اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں باربار مفاد پرست عناصر سے ڈسے جانے کے بعد اب توعوام کوسبق حاصل کرناچاہئے جس دن حالات عوام کو یہ شعور دلا دیں وہ دن تبدیلی کا ہوگا اور بس۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''