خصوصی اقتصادی زونزمعاشی ترقی کی ضمانت

چین کے ایک پٹی ایک شاہراہ پروگرام، جس کا سی پیک حصہ ہے، اس میں مطلوبہ معاشی استحکام اور پائیداری فراہم کرنے کی وسیع تر صلاحیت موجود ہے، سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز پر اگر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہو تو یہ ترقی کی کلید ہیں، پاکستان اس وقت معاشی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ سنگین بحران کا شکار ہے، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری، جس کا معیشت میں اہم کردار ہوتا ہے، اس نچلی سطح کو چھو رہی ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح برآمدات اور درآمدات میں مسلسل بڑھتا ہوا فرق ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے، سکیورٹی کے مسائل بھی روز بروز سر اٹھا رہے ہیں، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان معاشی مسائل سے کیسے نمٹا جائے؟ اس ضمن میں بہترین آپشنز میں سے ایک سی پیک اور اس سے متعلقہ خصوصی اقتصادی زونز کی مکمل بحالی ہے اور یہی سب سے بہترین آپشن تھا جسے مسلم لیگ (ن)کی سابقہ حکومت نے اختیارکیا تھا۔ لیکن2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے بعد خصوصی اقتصادی زونز کے اہم ترین اقدام کو نظر انداز کیا گیا جو ممکنہ طور پر معاشی ترقی اور استحکام میں بہت زیادہ کردار ادا کر سکتا ہے، چونکہ اب مسلم لیگ (ن)کی قیادت میں نئی مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھال لیا ہے اور وہ معیشت کے حوالے سے کافی سنجیدہ نظر آتی ہے، اس لیے سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز پر پیشرفت کا امکان ہے۔
ابتدائی طور پر تقریباً 29 خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا تھا، بعد میں اس پر نظر ثانی کرکے زونز کی تعداد 27 کر دی گئی جن میں سے صرف نو اقتصادی زونز کو پہلے قدم کے طور پر ترجیح دی گئی تھی، لیکن ان نو پر بھی مناسب انداز میںکام نہیں ہو سکا، اگر موجودہ حکومت، جو چینی حکومت اور سرمایہ کاروں کی نظروں میں بہت زیادہ ساکھ رکھتی ہے، وہ 27 اقتصادی زونزکے احیاء کیلئے پوری کوشش کرے، اس ضمن میں ابتدائی طور پر پہلے پانچ سالوں میں نو زونز، پھر اگلے پانچ سالوں میں دس، پانچ سالوں کے آخری مرحلے میں آٹھ خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کی منصوبہ بندی کر ے تو اس سے پاکستان میں اگلے 15 سالوں میں چینی حکومت اور سرمایہ کاروں کی جانب سے تقریباً 350 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے جس سے ہماری معیشت بڑے پیمانے پر بحال ہو سکتی ہے، وزارت منصوبہ بندی کو چین سے سرمایہ کاری راغب کرنے کیلئے خصوصی اقتصادی زونز کو خصوصی مراعات اور سہولیات فراہم کرنے کے پیکجز کے حوالے سے جامع منصوبہ وضع اور پالیسی دستاویز مرتب کرنی ہو گی ، اسی طرح وہ اپنی سرمایہ کاری پر منافع کی یقین دہانی اور بروقت ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے منافع کی واپسی بھی چاہتے ہیں جو کہ درحقیقت ایک جائز مطالبہ ہے۔
معیشت کے چینی ماڈل نے ہمیں اقتصادی ترقی کے بڑے اہداف کے حصول کیلئے صنعتی مجموعے اور اقتصادی زونز کی شکل میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے ہر ممکن کوشش کا سبق دیا ہے، پاکستان نے حال ہی میں چینی اقتصادی ترقی کے اس ماڈل پر عمل کرنا سیکھا ہے اور سی پیک کے پس منظر میں خصوصی اقتصادی زونزکی ترقی کیلئے اقدامات کرنا شروع کر دیئے ہیں،خصوصی اقتصادی زونز کا یہ لائحہ عمل ترقی یافتہ پاکستان کے ہدف کی جانب درست سمت میں ایک قدم ہے، 70 کی دہائی کے آخر اور 80ء کی دہائی کے اوائل میں چینی رہنما ڈینگ ژیاپنگ نے خصوصی اقتصادی زونز کے جدید تصور کے ذریعے عالمی سرمایہ کاروں کیلئے اپنی مارکیٹ کھول کر اقتصادی ترقی کے نئے وژن پر عملدرآمد شروع کیا، خصوصی اقتصادی زونز اور دیگر اقتصادی زونز براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کرنے، روزگار پیدا کرنے، مہارتوں بہتر بنانے، برآمدات کو بڑھانے اور متنوع بنانے کے ساتھ ساتھ تجارتی صلاحیتوں کو بڑھا کر چینی معیشت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، بعض جائزوں کے مطابق خصوصی اقتصادی زونز مجموعی ملکی پیداوار میں تقریباً 23 فیصد، چینی برآمدات میں تقریباً 60 فیصد حصہ ڈال رہے ہیں، اسی طرح45 فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب اور تقریباً 30 ملین ملازمتیں پیدا کر رہے ہیں، جو کسی معجزے سے کم نہیں۔خصوصی اقتصادی زونز کے ذریعے اقتصادی ترقی کا ماڈل دنیا کے دیگر حصوں اور خطوں میں بھی مقبول ہے،پاکستان سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز پر عمل درآمد کے ذریعے تقریباً دو دہائیوں تک سالانہ تقریباً آٹھ سے نو فیصد شرح نمو کا ہدف حاصل کر سکتا ہے جس سے ترقی یافتہ پاکستان کا خواب بھی پورا ہو جائے گا، اس اقدام سے پاکستان20 سال کے عرصے میں تمام غیر ملکی قرضوں اور منسلک شرائط بالخصوص آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے،خصوصی اقتصادی زونزکیلئے خصوصی مراعات اور سہولتیں نہ صرف براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بلکہ برآمدات پر مبنی ترقی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لوگوں خصوصاً ہمارے بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار، ملازمتیں اور خوشحالی لا سکتی ہیں، یوں خصوصی اقتصادی زونز حقیقی معنوں میں گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔
(بشکریہ، دی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  چار سنگین تر ہوتے مسائل